سوال

میرا نام محمد شہباز ولد محمد افضل ہے، میں فورٹ عباس کے ایک گاؤں کا رہائشی ہوں۔ 7 ذو الحجہ کو میں اپنے سسرال اپنی بیوی کو لینے گیا، لیکن انہوں نے ساتھ بھیجنے سے انکار کر دیا۔ میں نے غصے میں آکر کہا کہ اگر آپ نے میری بیوی کو میرے ساتھ نہ بھیجا تو میں اس کو طلاق دیتا ہوں۔  میرا باپ بھی اس بات کا گواہ ہے کہ میں نے  ایک دفعہ ہی طلاق دی تھی۔ لیکن پاس میری بیوی کی چاچی کھڑی تھی،  جس کی ہمارے ساتھ عداوت ہے، اس نے  یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ میں نے تین طلاقیں دی ہیں،  اسی اثنا میں انہوں نے گاؤں کے امام مسجد کو بلایا اور اس  چاچی نے اس کو کہا کہ اس نے تین طلاقیں دی ہیں، جس بنیاد پر امام مسجد نے فیصلہ کیا کہ  طلاق ہو گئی ہے، اب رجوع نہیں ہو سکتا۔

اس سلسلے میں ہماری قرآن و سنت کی رو سے رہنمائی کی جائے۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

طلاق دینا مرد کا حق ہے، طلاق دینے نہ دینے میں مرد کی بات ہی معتبر ہوتی ہے۔ اگر آپ اپنے اس بیان میں سچے ہیں اور بطور گواہ آپ کے والد بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ آپ نے ایک ہی طلاق دی ہے، تو اس میں آپ کی بات کا ہی اعتبار کیا جائے گا۔ جبکہ خاتون کی بات معتبر نہیں کیونکہ ایک تو  وہ اکیلی ہے اور اس کے پاس کوئی گواہ نہیں، دوسرا طلاق دینے نہ دینے کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔

اگر یہ ثابت ہو جائے کہ آپ نے واقعتا ایک وقت میں تین طلاقیں دی ہیں تو طلاق دینے کا یہ طریقہ رسول اللہ ﷺ کو انتہائی ناپسند تھا، آپﷺ نے اس انداز سے طلاق دینے کو اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل اور مذاق قرار دیا ہے۔ [سنن نسائی،الطلاق:3430]

لیکن پھر بھی کتاب وسنت کی رو سے ایک مجلس میں بیک وقت   ایک سےزائد طلاقیں دینے سے ایک رجعی طلاق ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقعہ  ہو ۔دلائل حسب ذیل ہیں:

1۔ ارشادِ باری تعالی ہے:

{الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} [البقرة: 229]

’ طلاق دو بار ہے پھر یا تو سیدھی طرح عورت کو روک لیا جائے یا بھلے طریقے سے اس کو رخصت کر دیا جائے‘۔

اگر تینوں طلاقیں بیک وقت شمار کرلی جائیں، تو ’روک رکھنے‘ کا مفہوم ختم ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فرمایا:

{يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ} [الطلاق: 1]

’ اے نبی! (اپنی امت سے کہو کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت   میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو ‘۔

اگر تینوں طلاقیں ایک ہی مرتبہ شمار کرلی جائیں، تو پھر خاوندوں کے لیے عدت شمار کرنے اور حساب رکھنے  کا کوئی مطلب باقی نہیں رہتا!

2۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے عہد نبوت ،سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ   کے زمانہ خلافت اور سیدنا عمر  رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں  تین طلاقیں ، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں ،لیکن کثرتِ طلاق کی وجہ سے سیدنا عمررضی اللہ   عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی ،اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے ۔اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کر دیا (صحیح مسلم:1472)  تاہم  سیدنا عمررضی اللہ  کا یہ اقدام تعزیری وانتظامی نوعیت کا تھا  ،  جیسا کہ اس بات کو کئی ایک حنفی اکابرین  نے بھی  تسلیم کیا ہے۔(ملاحظہ ہو: جامع الرموز کتاب الطلاق، 2/ 277)

3۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں سیدنا رکانہ رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں  تین طلاقیں دے دیں ۔لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے رسول اللہ ﷺ نے  ان سے پوچھا کہ تم نے  اسے طلاق کس طرح دی تھی ؟عرض کیا:تین مرتبہ۔ آپﷺ نے دوبارہ پوچھا:  ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں ؟عرض کیا! ہاں۔  آپ ﷺ نے فرمایا: پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے اگر تم چاہو تو رجوع کر سکتے ہو۔ راوی حدیث سیدنا ابن عباس رضی اللہ   عنہ کے بیان کے مطابق انہوں نے رجو ع کر کے  اپنا گھر آباد کر لیا تھا۔[مسند احمد:ص 123/4 ، ت: احمد شاکر  ]

اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

“هذا الحدیث نص فی المسئلة لایقبل التأویل”.[فتح الباری : 362/ 9]

یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ  کے متعلق ایک فیصلہ کن دلیل  کی حیثیت رکھتی ہے جس کی  کوئی تاؤیل نہیں کی جاسکتی ۔

بعض علمائے احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتوی دیا ہے۔ ان علما میں مولانا پیر کرم شاہ ،مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی واں بھچراں ،مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور  پروفیسر محمد اکرم ورک سرِفہرست ہیں ۔ ان کے فتاویٰ کی تفصیل( ایک مجلس میں تین طلاق ) نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتوی دیا جاتاہے۔

مذکورہ بالا تفصیل سے واضح ہوا کہ  اگر یہ بات ثابت بھی ہو جائے کہ آپ نے اکٹھی تین طلاقیں دی ہیں،  تو پھر بھی وہ ایک طلاق  ہی شمار ہو گی ،  اور آپ کے پاس رجوع کا حق موجود  ہوگا۔  کیونکہ پہلی اور دوسری طلاق کے بعد عدت کے اندر اندر رجوع کا  حق موجود ہوتا ہے۔  آپ کی اہلیہ  عدت میں  ہے، تو آپ   بلا نکاح اس سے  رجوع کرسکتے ہیں۔

آخر میں ہم دونوں میاں بیوی  اور ان کے خاندانوں کو  یہ نصیحت  کرنا چاہتے ہیں کہ اختلاف اور لڑائی جھگڑا ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن  غصے، غمی یا خوشی کی حالت میں  بے قابو ہوکر انتہائی اقدام کرنا خطرناک ہے، لہذا اس کی وجوہات کو تلاش کریں، پھر ذہنی جسمانی روحانی جو بھی وجہ ہے، اسے حل کرنے کی کوشش کریں ۔ نماز، روزہ، ذکر واذکار اور تلاوتِ قرآن کریم کی پابندی کیا کریں، وقتا فوقتا صدقہ وخیرات، اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔ ان نیکیوں کی برکت سے امید ہے اللہ تعالی آپ کے تمام مسائل اور پریشانیوں کو حل فرمادیں گے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ سب اہل خانہ کو سعادتمندی اور نیکی وتقوی سے بھرپور لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الدکتور عبد الرحمن یوسف مدنی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ