سوال (2821)
ایک عورت کو طلاق ہوئی ہے اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں تو شوہر نے وہ چھوٹے بچے ان کی ماں سے لے لیے ہیں، جس پر ماں کو بھی تکلیف ہے، اور بچے بھی ماں کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں تو اس کے بارے میں شریعت کیا فیصلہ کرتی ہے، یہ بچے ماں کو ملیں گے یا باپ کو ملیں گے۔
جواب
اگر عورت نکاح نہ کرے تو حدیث میں آتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی زیادہ حقدار ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آگے نکاح کر لے گی تو حقدار تو ہے، لیکن نمبرز کچھ کم ہوجائیں گے، قانونی طور پر بھی شاید ایسا ہے کہ بچے جب تک نابالغ ہوں تو بچے والدہ کے پاس ہوتے ہیں، خرچہ والد دیتا ہے، قانونی طور پر کسی وکیل سے مشورہ کیا جائے، مختلف احادیث ہیں، ایک حدیث میں یہ بھی آتا ہے کہ بچے کو اختیار دیا جائے، آخری فیصلہ یہ ہے کہ جہاں بچے کا دین و دنیا محفوظ ہو، بچے وہاں رہیں گے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
قانوناً اور شرعاً والد والدہ سے بچے نہیں لے سکتا ہے، میں اس کے قانونی پہلوؤں سے بھی اچھے طریقے سے واقف ہوں، الا یہ کہ ایک بہت بڑی وجہ والد بتا دے، جیسا کہ دلائل کے ساتھ ثابت کردے کہ جس عورت کو میں نے طلاق دی ہے، وہ بد کردار ہے، ورنہ کم سے کم لڑکا آٹھ سال تک اور لڑکی بالغ ہونے سے پہلے تک والدہ کے پاس ہی رہے گی، یہ قانون ہے، شریعت اسلامیہ بھی یہی بتاتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ بچے اور ماں کے درمیان جدائی نہیں کروائی جائے گی۔
اب رہا یہ مسئلہ کہ کیا کرنا ہے، ایک بہت زیادہ خرچہ نہیں بلکہ یہ کرنا ہے کہ کوئی اچھا سا وکیل تلاش کیا جائے، جو برائے نام فیس لے گا، جو عدالت میں دعویٰ کرے گا کہ اس طرح میرے بچے چھین لیے گئے ہیں، وہ عدالت بچے واپس دلوائے گی، اگر وہ آدمی دوبارہ بچوں کو چھین کر لے جاتا ہے تو اس پر اغوا کا پرچہ ہو جائے گا، جج سے براہ راست بھی اگر عدالت میں بات کی جائے کہ میرے بچے فلاں کے پاس ہیں، اس نے مجھے طلاق دے دی ہے، جو مقامی ایس ایچھ او اس وقت تک کرسی میں نہیں بیٹھے گا، جب تک وہ بچے درآمد نہیں کرواتا، میں نے قانونی اور شرعی دونوں پہلو رکھ دیے ہیں، جہاں تک معاشرتی پہلو کا تعلق ہے، وہ آدمی عدالت میں گزارش کرے گا کہ اس طرح میرے بچے میری سابقہ بیوی کے پاس ہیں، مجھے ملنے کی اجازت دی جائے تو جتنی دیر تک عدالت اجازت دے گی، اتنی دیر تک بچوں سے مل سکتا ہے۔ لیکن ساتھ لے جا نہیں سکتا ہے، یہ میں پوری تحقیق کے ساتھ بات رکھ رہا ہوں۔
فضیلۃ الشیخ عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ