سوال (6430)
اس پوسٹ کی وضاحت کردیں الشیخ رفیق طاھر حفظہ اللہ نے لگائی ہے۔
الطلاق مرتان، إمساك بمعروف أو تسريح بإحسان،
پہلی اور دوسری میں سے ہر طلاق کے بعد مرد کے پاس صرف دو اختیار ہیں، ان میں سے کوئی ایک چن لے۔
یا تو عورت کو نکاح میں واپس لے لے، خواہ دوران عدت رجوع کرکے یا بعد از عدت تجدید نکاح کر کے۔
یا اسے چھوڑ دے، حتی کہ عدت ختم ہو جائے اور وہ کسی اور مرد سے شادی کر لے۔
ان دو کے سوا تیسرا کو آپشن قرآن و حدیث میں نہیں ہے۔
لہذا جو لوگ ایک طلاق دینے کے بعد عدت میں ہی دوسری یا تیسری طلاق دیتے ہیں، انکی طلاق شرعا شمار نہیں ہوتی کیوہان کے پاس طلاق دینے کا اختیار ہی نہیں ہے. صرف دو اختیار ہیں امساک بمعروف اور تسریح بإحسان.
جواب
یہ موقف شیخ صاحب کا ہے، یہی موقف ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ابن القیم رحمہ اللہ کا ہے، اس کے علاؤہ جو علماء ان کے نہج پر چلے ہیں، ان کا بھی موقف یہی ہے، باقی برصغیر کے علماء ان کا موقف ہے کہ مجلس بدل جائے تو دوسری طلاق ہو جائے گی، ایک مجلس سے مراد ایک حیض ہے، جس طرح رئیس ندوی رحمہ اللہ نے کہا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ




