سوال

ایک بھائی ہیں جن کی اپنی اہلیہ سے ناراضگی ہوئی، وکیل سے طلاق نامہ لکھوا کر اپنے پاس رکھ لیا، جاری نہیں کیا،تقریباً پونے دو سال تک اہلیہ سے جدا رہے اور بعد میں صلح ہوگئی۔سوال یہ ہے کہ ایسی صلح کے لیے عقدِ جدید کی ضرورت ہے یا نہیں؟

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

اس مسئلہ میں علمائے کرام کے مابین اختلاف ہے۔ تفصیل درج ذیل ہے:

1: جب شوہر نے وکیل سے طلاق نامہ لکھوایا، تو یہ ایک باقاعدہ عمل شمار ہوگا، کیونکہ اس میں طلاق کی نیت بھی شامل تھی۔

شرعی اصول “ما لَمْ تَعْمَلْ أَوْ تَكَلَّمْ” (جب تک عمل یا قول نہ ہو) کے تحت عمل ہوگیا، کیونکہ شوہر نے زبان سے وکیل کو طلاق لکھنے کا کہا اور طلاق کی نیت بھی موجود تھی۔

اس لیے بعض اہل علم کے نزدیک جب طلاق کی تحریر مکمل ہوگئی، وکیل اس کا گواہ بھی بن گیا، تو یہ طلاق واقع ہوگئی، چاہے بیوی کو پہنچائی جائے یا نہ پہنچائی جائے۔

یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی زبانی طلاق دے اور بعد میں کہے کہ نیت نہیں تھی، جبکہ شرعی طور پر نیت کا اظہار تحریری یا زبانی الفاظ کے ذریعے ہوچکا ہوتا ہے۔

اس رائے کے مطابق انکی ایک طلاق ہوچکی ہے، اور چونکہ عدت کی مدت بھی گزر چکی ہے، اس لیے اگر وہ دوبارہ ازدواجی تعلق قائم کرنا چاہیں تو تجدیدِ نکاح (نیا نکاح) ضروری ہوگا۔

2: اور بعض علمائے کرام کے نزدیک طلاق نامہ لکھ کر رکھ لینے سے طلاق واقع نہیں ہوتی جب تک کہ شوہر اسے اپنی بیوی کو بھیج نہ دے یا واضح الفاظ میں اس کا اعلان نہ کردے۔

نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

“إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ”.[صحیح البخاری: 01]

’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔

اس سے استدلال کیا جاتا ہے کہ جب تک شوہر طلاق کو نافذ کرنے کا ارادہ نہ کرے  تو محض لکھ یا لکھوا کر رکھ لینے سے طلاق واقع نہیں ہوگی۔

لہذا شوہر نے اگر محض طلاق لکھوا کر رکھی لیکن بیوی تک نہیں پہنچائی اور بعد میں صلح کرلی، تو نکاح بدستور قائم رہے گا اور نکاح جدید کی ضرورت نہیں ہوگی۔

یاد رہے اس رائے کے مطابق بھی اگر لکھتے یا لکھواتے وقت طلاق دینے کی نیت ہوگی تو طلاق واقع ہوجائے گی، چاہے بیوی تک طلاق کا نوٹس پہنچے یا نہ پہنچے۔ گویا اصل دار و مدار نیت ہے، بیوی تک اس کی اطلاع پہنچنا نہ پہنچنا ایک اضافی بات ہے۔

لہذا اس مذکورہ صورت میں شوہر نے وکیل سے طلاق نامہ لکھوایا تھا اور طلاق کی نیت بھی موجود تھی، اگرچہ اسکو بھیجنا بعد میں ہی تھا۔ جسکی وجہ سے انکی ایک طلاق واقع ہوچکی ہے اور احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ نکاح جدید کرلیں تاکہ کسی بھی قسم کے شبہ سے بچا جا سکے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ