سوال

میرا نام احمد ہے، ہم میاں بیوی آپس میں خوش ہیں، لیکن ہمارے گھر والے اس شادی سے راضی نہیں ہیں، لہذا ان کے دباؤ میں آ کر میں نے اپنی بیوی کو طلاق کا پہلا نوٹس 24۔10۔24 کو بھیجا، لیکن پھر پندرہ بیس دن بعد اس سے رجوع کر لیا، دوسرا طلاق کا نوٹس 03۔ 12۔ 24 کو بھیجا، لیکن اس دوران ہم آپس میں ملتے بھی رہے، پھر میری بیوی نے مجھے بتایا کہ جب ہم پہلی طلاق کے بعد ملے تھے تو وہ اس سے حاملہ ہو گئی تھی، اسی دوران میں طلاق کا تیسرا نوٹس بھی دستخط وغیرہ کرکے تیار کروا چکا تھا، لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ میری بیوی حاملہ ہے، تو میں نے تیسرا نوٹس نہیں بھجوایا۔

اسی دوران ہمارے گھر والوں کو بھی معاملات کا علم ہو گیا، اور پھر گھر میں بھی صلح کی بات چلنا شروع ہو گئی، اس وقت وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہماری آپس میں صلح ہو جائے، تو کیا ہم رجوع کر سکتے ہیں، کیونکہ تیسرا نوٹس ابھی میں نے نہیں بھیجا اور منہ سے طلاق بھی ادا نہیں کی۔ برائے مہربانی شرعی رہنمائی فرمائیں۔

جواب

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!

جب کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرتا ہے، تو اسے تین طلاق دینے کا اختیار حاصل ہو جاتا ہے۔ ان میں سے پہلی طلاق دینے کے بعد شوہر کے پاس دو راستے ہوتے ہیں: اگر وہ عدت کے دوران رجوع کر لے، تو نکاح باقی رہتا ہے، اور اگر عدت گزرنے کے بعد رشتہ بحال کرنے کا ارادہ کرے، تو تجدیدِ نکاح کرنا ہوگا۔ یہی حکم دوسری طلاق کا بھی ہے کہ عدت میں رجوع اور عدت کے بعد نیا نکاح کیا جاسکتا ہے۔ یہ پہلی دونوں طلاقیں رجعی ہوتی ہیں، ان کے بعد دوبارہ ازدواجی تعلق اور رشتہ بحال کیا جا سکتا ہے۔

لیکن تیسری طلاق فیصلہ کن ہوتی ہے۔ اس کے بعد نہ رجوع کی گنجائش باقی رہتی ہے، نہ ہی نیا نکاح کیا جا سکتا ہے، الا كہ اس عورت سے کوئی دوسرا شخص گھر بسانے کی نیت سے شرعى نكاح كرے، اور پھر وہ شخص فوت ہوجائے، یا پھر ویسے طلاق دے دے، تو ایسی صورت میں عدت گزرنے کے بعد پہلا مرد اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔

جس طرح حیض کے دوران طلاق دینا سنت طریقہ نہیں ہے، لیکن حیض والی طلاق کو طلاق شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح اگر کوئی ایک طہر میں ایک سے زائد یا دورانِ عدت طلاق دے دیتا ہے، تو ان کو بھی شمار کیا جائے گا۔

عموما طلاق دینے کے بعد لوگ کہ دیتے ہیں کہ میری نیت طلاق کی نہیں تھی وغیرہ، یہ سب چور دروازے ہیں، لفظِ طلاق کا استعمال نیت کا محتاج نہیں ہے، جب کوئی طلاق کا صریح لفظ استعمال کرتا ہے تو پھر طلاق ہی شمار کی جائے گی۔ ہاں اگر وہ کنائے کے الفاظ استعمال کرتا ہے، جیسے: میں تجھے آزاد کرتا ہوں، میرا تجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے، پھر اس کی نیت کا پوچھا جاتا ہے، لیکن اگر صورتِ مسئولہ کی طرح صراحتا طلاق کا لفظ استعمال کرتا ہے، تو ایسی صورت میں نیت کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، کیونکہ صراحتا لفظِ طلاق کا استعمال نیت کا محتاج نہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

“إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا، مَا لَمْ تَعْمَلْ، أَوْ تَكَلَّمْ بِهِ”.[صحیح مسلم: 127، صحیح البخاری: 2528]

’’بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ان باتوں سے درگزر فرمایا ہے جو وہ دل میں اپنے آپ سے کریں، جب تک اس پر عمل یا کلام نہ کریں‘‘۔

مذکورہ صورت میں تیسری طلاق کی بات زبان پر تو نہیں لائی گئی، لیکن عملا تو اس نے اسٹام بھی لکھوا لیا ہے، اس پر دستخط بھی کردیے ہیں، ظاہر ہے طلاق کی نیت تھی، تبھی اس نے طلاق نامہ تیار کروایا ہے، طلاق بھی واضح طور پر لکھی گئی ہے، اب بیوی کو بھیجی ہے یا نہیں، بیوی کو ملی ہے یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ طلاق کا نوٹس عورت کو ملنا طلاق کے وقوع کے لیے شرط نہیں ہے، اس لیے اگر اس نے طلاق کا لفظ کہہ دیا اور اس پر گواہ یا دلیل موجود ہے یا طلاق لکھ دی اور اس پر گواہ یا دلیل موجود ہے، تو طلاق واقع ہوجائے گی۔

لہذا طلاق کا لفظ لکھنا یا لکھواکر دستخط کردینا، بولنے کے قائم مقام ہے، اور مذکورہ صورت میں خاوند نے واضح طور پر طلاق کا نوٹس تیار کروایا اور اس پر اپنے دستخط بھی کیے، اور اس میں طلاق کے الفاظ بھی استعمال کیے، اس لیے ہمارے رجحان کے مطابق انکی تینوں طلاقیں ہی واقع ہو چکی ہیں۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ  محمد إدریس اثری حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ