– علماء کا احترام طلبۂ علم کے لیے ضروری ہے۔ علماء کے درمیان پیدا شدہ اختلاف کے متعلق انھیں وسعت ظرفی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ طالبعلم کے نزدیک اگر کوئی عالم غلطی پر ہو تو طالبعلم کو اس کے لیے عذر تلاش کرنا چاہیے۔ یہ بات بڑی اہم ہے۔ بعض افراد دوسروں کی غلطیوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ ان غلطیوں کو وہ ان کے خلاف استعمال کرکے انھیں بدنام کریں۔ یہ بجائے خود بڑی غلطی اور گناہِ کبیرہ ہے۔ ایک عالم دوسرے عالم کی غیبت کرے تو یہ نسبتاً زیادہ بڑا گناہ ہے۔ پس علماء کے درمیان جو اختلاف ہو، اسے حسنِ نیت اور اجتہاد پر محمول کرنا چاہیے۔ البتہ خود ان علماء سے ملاقات کرکے ان پر ان کی غلطی واضح کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ بندہ بشر سے غلطی ہو جاتی ہے لیکن اگر وہ کسی عالم کی لغزش پر خوش ہو کر اسے لوگوں کے درمیان پھیلائے تو یہ سلف کا طریقہ نہیں۔
– بعض طلبہ حدیث اور اصول حدیث کا علم رکھتے ہیں لیکن وہ قرآن مجید سے بے بہرہ رہتے ہیں۔ یہ بڑی غلطی ہے۔ حدیث اور قرآن مجید دونوں سے یکساں طور پر اعتنا ضروری ہے۔
– علماء کے کلام کو معمولی سمجھ کر اس سے غافل مت رہو کیونکہ علماء علم میں تم سے زیادہ رسوخ رکھتے ہیں۔ ان کے پاس شریعت کے قواعد و ضوابط اور اسرار و رموز کا وہ علم ہے جو تمھارے پاس نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے تحقیق کے نزدیک اگر کوئی قول راجح ہو تو وہ (از راہِ احتیاط ) یوں کہتے ہیں: اگر کسی عالم نے یہ بات کہی ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم یہ بات نہیں کہتے۔ ابن تیمیہ بھی اسی طرح کہتے تھے: اگر کسی عالم نے یہ بات کہی ہے تو میں بھی کہتا ہوں۔
– طالبعلم جو کام کرے یا جس کتاب کا مطالعہ کرے، اسے وہ صبر و ثبات سے مکمل کرے۔ کتاب کا کچھ حصہ پڑھ کر اسے چھوڑے نہیں۔ یہ نقصان کا باعث اور وقت کاضیاع ہے۔

كتاب العلم از امام عثیمین رحمه الله
چند ضروری نکات (ح ق ح۔)

حافظ قمر حسن