سوال (3022)

(1) : تعظیم اور عبادت میں کیا فرق ہے؟ مثالوں سے واضح کریں,
(2) : کیا قیام، رکوع، سجدہ، نیاز، منت، فریادکرنا یا اعتکاف کرنا تعظیم ہے یا عبادت ہے،
(3) : کون سے مراسم تعظیم عبادت کے زمرے آتے ہیں تاکہ وہ خالص اللہ کے لیے بجا لائے جائیں
(4) : کیا کسی کو سجدہ کرنا شرک ہے؟ توکیا پہلی امتوں میں شرک جائز تھا اب ناجائز، شرک تو کبھی جائز نہیں رہا، عقلی اور منطقی دلائل سے واضح اور تسلی بخش جواب دیں

جواب

ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس پر مجموع الفتاوی میں بحث کی ہے۔ عبادت اور مظاہر عبادت میں
یہ یاد رہنا چاہیے کہ عبادت اور مظاہر عبادت کوئی الگ چیز نہیں ہے ایک قالب دو جان والا معاملہ ہے، صوفیہ نے کہا کہ دل کی صفائی ہونی چاہیے اور قلب کے عمل ہی کو عبادت پر متوجہ ہو تو اس کے مظاہر کیوں سامنے نہ آئیں
دوسری طرف عادات ہیں یعنی ظاہر سے تو عمل ہو رہا ہے جو حقیقت میں مظہر ہے اور اس کے پیچھے جو مغزی و اصل ہے وہ مفقود ہے، اسی لئے دو آدمی ایک ہی جیسا عمل کرتے ہیں مگر ان کے عمل کا درجہ اور مقام الگ الگ ہے، ایک کی نماز اس کے منہ پر دے ماری جاتی ہے اور دوسرا ایسا ثواب لے جاتا ہے کہ اس کا شمار ناممکن ہے، قلب کی عبادت کو اصل عبادت جبکہ جوارح کی عبادات کو اس کا مظہر قرار دیا گیا ہے
اصل عبادت “انابت، تعظیم، حب، رجوع، خشیت، خوف، رجا (امید) وغیرہ ہیں جب کہ مظاہر صوم و صلاۃ ۔۔۔
لیکن ان میں سے کچھ چیزیں منقسم ہیں خالق اور مخلوق کے لئے جیسے خوف، حب، توقیر و تعظیم انسان کئی چیزوں سے خوف کھاتا ہے مگر یہ وہ خوف نہیں ہوتا جیسا خوف اللہ کے بارے مطلوب ہے، محبت کہ انسان اپنے جیسوں سے بھی کرتا ہے مگر جب یہ اللہ کی محبت جیسی ہو جائے تو شرک ہو جائے گی، اسی طرح تعظیم و توقیر ہے، تو اصل میں آپ کے سوالات توحید کے پورے موضوع پر مشتمل ہیں جن کا یہاں جواب مختصرا ہی دیا جا سکتا ہے کہ تفصیل کا یہ متحمل نہیں، سجدہ تحیہ یا توقیر کے واسطے سجدہ پرانے امتوں میں جائز تھا وہاں پر بھی یہ سجدہ ویسا سجدہ نہیں تھا کہ جیسا اللہ کو کیا جاتا ہے جیسا اللہ کے لئے مطلوب ہے، یعنی محبت، خشیت، ثواب کی امید اور احتساب و ایمان کے ساتھ، بلکہ اس کے پیچھے مغزی و اصل بالکل الگ ہوتی تھی یعنی تکریم یا تحیہ اور سجدہ اس کا مظہر تھا، مگر چونکہ یہ سبیل ہے اس تعظیم اور جلالت و عظمت کی رعایت رکھتے ہوئے۔ سجدہ کرنے کی طرف جو اللہ کے لئے مطلوب ہے جیسا اھل قبور اپنے بزرگوں کے لئے کرتے ہیں، تو اس لئے ہماری شریعت میں اسے سد ذرائع کے طور پر ممنوع قرار دے دیا گیا، قیام،رکوع و سجدہ، نیاز منت فریاد یا اعتکاف تو یہ خالص عبادات ہیں، جو اصل اور مظہر کا مجموعہ ہیں اور یہی دونوں مطلوب ہیں یعنی خاص طریقہ پر بندگی کا طریقہ اللہ نے اپنے بندوں کو سیکھایا، اگرچہ انفرادی طور پر بعض ایسے مظاہر ہیں جو اپنے مغزی اور اصل کی وجہ سے دوسری حیثیت اختیار کر جاتے ہیں اسی لئے وہ سابقہ شریعتوں مخلوق میں جائز ہو سکتے ہیں لیکن کچھ خالص عبادت کے درجے کی حیثیت رکھتے ہیں، جو کھبی بھی کسی صورت بھی مخلوق کے لئے صرف نہیں کیے جاسکتے (اسی لئے آپ دیکھیں گے طواف کرنے کی دو قسمیں بنائی ہیں علماء نجد نے ایک کو بدعت کہتے ہیں دوسرے کو شرک)
واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ