طالب علم کے لیے پانچ اصول

شیخ صالح العصیمی حفظہ اللہ کا شمار سعودیہ کے بڑے علماء میں ہوتا ہے۔ آپ کا ایک محاضرة “واجب طلاب العلم في النوازل والحوادث المدلهمة” کے عنوان سے ہے جو تحریری شکل میں بھی موجود ہے۔ اس میں شیخ حفظہ اللہ نے طلاب علم کے لیے پانچ اصول بیان کیے ہیں جو نوازل(نازل ہونے والے فتنے) اور تاریک فتنوں کے دور میں انہیں اپنانے چاہئیں۔ آج ہمارے محبوب شیخ موہب موهب الرحيم حفظہ اللہ نے اس پر تعلیق و اضافے کی محفل منعقد کی۔ جس میں سے چند باتیں پیش کی جاتی ہیں:

پہلی اصل:

رد الأمر الی اھلہ والاستغناء بھم عن غیرھم

کہ اس معاملے کو اس کے حل کے اہل(حاکم اور علماء ) کی طرف پھیر دیا جائے اور ان کے علاوہ باقی لوگوں سے اس معاملے میں استغناء برتا جائے۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
سورۃ النسآء
آیت نمبر: 83

وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِّنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ:
جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کردیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اس رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کردیتے تو اس کی حقیقت وہ لوگ معلوم کرلیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں (١) اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوہ تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے۔
چنانچہ پہلے تو طالب علم معاملے کو اس کے اہل لوگوں کے حوالے کردے پھر ان کے علاوہ باقیوں سے استغناء بھی برتے یعنی ہر ایک کی رائے نا مانگتا پھرے۔ “ردواہ الی اولی الامر” مکمل ہی تب ہوتا ہے جب ان کے علاوہ دوسروں کی رائے سے مستغنی ہوا جائے۔
اس اصل پر عمل نا کرنے سے فتنہ مزید پھیلتا اور پیچیدہ ہوتا جاتا ہے۔
اس اصل میں طالب علم کے ساتھ ساتھ عام لوگ بھی شامل ہیں۔
طالب علم کا اس اصل پر عمل نا کرنا بہت بڑی خیانت ہے۔

دوسری اصل:

اشتغال طالب العلم بوظیفته المرادة منه:

کہ طالب علم اپنے اصل کام(طلب علم) کے ساتھ ہی مصروف رہے۔
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
سورۃ التوبہ
آیت نمبر: 122

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ

ترجمہ:
اور مسلمانوں کو یہ نہ چاہیے کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں سو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کی ہر بڑی جماعت میں سے ایک چھوٹی جماعت جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ بوجھ حاصل کریں اور تاکہ یہ لوگ اپنی قوم کو جب کہ وہ ان کے پاس آئیں، ڈرائیں تاکہ وہ ڈر جائیں (١)۔
لہذا جب وہ تمام امور کو ترک کر کے اس مصروفیت میں مشغول ہوا ہے تو پھر اسی کے ساتھ مشغول رہے۔ نا کہ ان چیزوں کے ساتھ جو اس سے متعلق نہیں ہیں۔
اب کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تو آنکھیں بند کرنے کا حکم ہے۔ تو بات یہ ہے کہ محاضرے کے عنوان میں یہ بات داخل ہے کہ طالب علم کا تعامل کیا ہو۔ عالم دین کے لیے تو معاملے کو سنبھالنا ضروری ہے اور وہ سنبھالتے بھی ہیں۔ علم کے ساتھ مصروف رہنا طالب کا کام ہے۔

تیسری اصل:

الرفق والتأني:

یعنی نرمی اور میاناروی
شریعت تمام امور میں اصلا نرمی اور میانہ روی کو پسند کرتی ہے۔ جب کہ طیش اور جلد بازی شیطان کی محبوب صفات ہیں۔
بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اکثر اوقات فتنہ شروع ہی طیش اور جلد بازی کی وجہ سے ہوتا ہے تو بے جا نا ہوگا۔ بعض اوقات بندہ حق پر بھی ہوتا ہے مگر جلد بازی کی وجہ سے بات ایسی بگڑتی ہے کہ فتنہ بن جاتی ہے۔

چوتھی اصل:

 التثبت وعدم التسارع إلى نقل الشائعات والأراجيف:

یعنی بات کی تحقیق کر لینا اور افواہوں اور خبروں کو نشر کرنے میں جلدی نا کرنا
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں:
سورۃ الحجرات
آیت نمبر: 6

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ

ترجمہ:
اے مسلمانو! اگر تمہیں کوئی فاسق خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو (١) ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو پھر اپنے لئے پریشانی اٹھاؤ۔
تو اگر فاسق (جو کہ معروف الحال ہے)، اس کے بارے میں اللہ پاک یہ فرماتے ہیں تو جو بندہ ہے ہی مجہول الحال اور مجہول العین، اس کے بارے تو یہ حکم بالاولی ہے۔ عام طور پر سوشل میڈیا پر پھیلی بات کے پھیلانے والے کو ہم نہیں جانتے ہوتے۔ تو اس بات کی تحقیق کرنا تو زیادہ ضروری ہے۔
لوگوں پر جھوٹ باندھنے والے کے لیے تو سخت وعید شریعت میں وارد ہوئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:

وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ “.
أخرجه أبو داود في “السنن”، أول كتاب الأقضية باب فيمن يعين على خصومة (4/ 18) رقم (3597).

کہ جس نے مسلمان کے بارے ایسی بات پھیلائی جو اس نے نہیں کہی(اس میں نہیں تھی) تو اسے جہنمیوں کا پیپ اور خون پلایا جائے گا۔(نعوذ باللہ من ذلک)

پانچویں اصل:

تقوية النفس بالإيمان والإعتزاز به وتقوية من يلونهم ويتولوهم:

کہ اپنے نفس کی ایمان کے ذریعے تقویت اور اس (دین) پر فخر اور عزت محسوس کرنا اور اپنے آس پاس والوں اور معاشرے والوں کی تقویت کا سبب بننا۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
سورۃ الزخرف
آیت نمبر: 28

وَجَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِي عَقِبِهِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ

ترجمہ:
اور (ابراہیم علیہ السلام) اسی(کلمہ توحید/دین) کو اپنی اولاد میں بھی باقی رہنے والی بات (١) قائم کرے گا تاکہ لوگ (شرک سے) باز آتے رہیں (١)۔
چنانچہ طالب علم اس بات پر یقین رکھے کہ یہ دین محفوظ ہے، اس کی حفاظت اللہ تعالی نے کی ہے اور کرے گا۔ اور قیامت تک حق والی جماعت کو زندہ رکھے گا لہذا مایوسی کا سبب نا بنے اور خود بھی مایوسی سے بچے۔ اور ایمان کو قوت بخشنے والی چیزوں میں مشغول ہو۔ اور دوسروں کے ایمان کی تقویت کا بھی باعث بنے۔
ان پر بعض باتیں شیخ موہب الرحیم نے اضافہ فرمائیں کہ:
– پہلی اصل میں ہی یہ بات بھی داخل ہے کہ اگر اہل علم کو فتنہ کی خبر نا ہو تو طالب علم ان تک بات کو پہنچا دے۔
– دوسری اصل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ شریعت کے اور سلف امت کے فتنوں سے تعامل کا علم بطور خاص حاصل کرے۔
– عبادت کا خاص اہتمام کرے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:

الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إِلَيَّ “

أخرجه مسلم في “صحيحه”، كتاب :

الفتن وأشراط الساعة باب فضل العبادة في الهرج (8/ 208) رقم (2948).

کہ فتنوں کے دور میں عبادت ایسے ہی ہے جیسے میری طرف ہجرت۔
بعض سلف کے اقوال اس معنی کے ملتے ہیں کہ:

صَاحِب الصِّدْق مَعَ اللهِ لَا تَضُرّهُ الْفِتَن۔

کہ اللہ کے ساتھ سچے بندے کو فتن نقصان نہیں دیتے
– دعا اس دور میں مسلمان اور خاصکر طالب علم کا ہتھیار ہونا چاہیے۔ رسول اللہ ﷺ سے دعا منقول ہے کہ “واذا أردت بعبادك فتنة فاقبضني غير مفتون” کہ اے اللہ جب تو اپنے بندوں پر کوئی آزمائش بھیجے تو مجھے اس میں مبتلا کیے بغیر اٹھا لینا۔ اسی طرح آپ ﷺ کی رات کی نماز میں یہ دعا شامل تھی کہ:

“اهدني لما اختلف فيه من الحق بإذنك”

کہ حق کی جس بات میں لوگ اختلاف کرتے ہیں مجھے اپنے حکم سے اس میں سیدھا راستہ دکھا۔
– طالب علم کا دیگر لوگوں کے طرف معاملہ نصیحت والا ہو کہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں ” الدين النصيحة… ولعامتهم” کہ دین نصیحت ہے۔۔۔ اور عام مسلمانوں کے ساتھ بھی نصیحت ہے۔
لہذا طالب علم خاصتا ان امور کا خیال رکھے تو فتنے کے شر سے ان شاء اللہ محفوظ رہے گا۔ واللہ اعلم

اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه. آمين

حافظ نصراللہ جاوید

یہ بھی پڑھیں: نکاح ایک حسین بندھن