سوال (2675)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سید نا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سرخ چادر پر ٹیک لگائے مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں حصول علم کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” طالب علم کو مرحبا، بے شک فرشتے طالب علم کو گھیر لیتے ہیں اور اس پر اپنے پروں سے سایہ کرتے ہیں اور ( کثرت تعداد کی وجہ سے ) ایک دوسرے پر سوار ہوتے ہوتے آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں، کیونکہ وہ اس چیز سے محبت کرتے ہیں، جس کو طالب علم حاصل کر رہا ہوتا ہے۔
[سلسله احادیث صحیحہ: 3397]
جواب
جی یہ روایت ان الفاظ سے ثابت ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺯاﻕ ﻗﺎﻝ: ﺃﻧﺒﺄﻧﺎ ﻣﻌﻤﺮ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ اﻟﻨﺠﻮﺩ، ﻋﻦ ﺯﺭ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺶ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺗﻴﺖ ﺻﻔﻮاﻥ ﺑﻦ ﻋﺴﺎﻝ اﻟﻤﺮاﺩﻱ، ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﺟﺎء ﺑﻚ؟، ﻗﻠﺖ: ﺃﻧﺒﻂ اﻟﻌﻠﻢ، ﻗﺎﻝ: ﻓﺈﻧﻲ ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ: ﻣﺎ ﻣﻦ ﺧﺎﺭﺝ ﺧﺮﺝ ﻣﻦ ﺑﻴﺘﻪ ﻓﻲ ﻃﻠﺐ اﻟﻌﻠﻢ، ﺇﻻ ﻭﺿﻌﺖ ﻟﻪ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﺃﺟﻨﺤﺘﻬﺎ ﺭﺿﺎ ﺑﻤﺎ ﻳﺼﻨﻊ
[سنن ابن ماجه : 226 سنده حسن]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ، ﻭﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻭﻫﻤﺎﻡ، ﻭﺷﻌﺒﺔ، ﻋﻦ ﻋﺎﺻﻢ، ﻋﻦ ﺯﺭ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺶ، ﻗﺎﻝ: ﻏﺪﻭﺕ ﻋﻠﻰ ﺻﻔﻮاﻥ ﺑﻦ ﻋﺴﺎﻝ اﻟﻤﺮاﺩﻱ ﻓﻘﺎﻝ: ﻣﺎ ﺟﺎء ﺑﻚ ﻳﺎ ﺯﺭ؟ ﻗﻠﺖ: اﺑﺘﻐﺎء اﻟﻌﻠﻢ ﻓﻘﺎﻝ: ﺃﻓﻼ ﺃﺑﺸﺮﻙ؟ ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺩاﻭﺩ: ﻗﺎﻝ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺳﻠﻤﺔ: ﻭﻟﻢ ﻳﻘﻠﻪ ﺃﺣﺪ ﻣﻨﻬﻢ ﻭﺭﻓﻊ اﻟﺤﺪﻳﺚ: ﺇﻥ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﻟﺘﻀﻊ ﺃﺟﻨﺤﺘﻬﺎ ﻟﻄﺎﻟﺐ اﻟﻌﻠﻢ ﺭﺿﺎ ﺑﻤﺎ ﻳﻄﻠﺐ
[مسند أبی داود الطیالسی : 1261 سنده حسن لذاته لأجل عاصم بن بهدلة وهو صدوق حسن الحديث]
ﺣﺪﺛﻨﺎ اﻟﺤﻤﻴﺪﻱ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺳﻔﻴﺎﻥ، ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﻋﺎﺻﻢ اﺑﻦ ﺑﻬﺪﻟﺔ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺯﺭ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺶ، ﻗﺎﻝ: ﺃﺗﻴﺖ ﺻﻔﻮاﻥ ﺑﻦ ﻋﺴﺎﻝ اﻟﻤﺮاﺩﻱ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻲ: ﻣﺎ ﺟﺎء ﺑﻚ؟ ﻗﻠﺖ: اﺑﺘﻐﺎء اﻟﻌﻠﻢ، ﻗﺎﻝ: ﺃﻥ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﺗﻀﻊ ﺃﺟﻨﺤﺘﻬﺎ ﻟﻄﺎﻟﺐ اﻟﻌﻠﻢ ﺭﺿﺎ ﺑﻤﺎ ﻳﻄﻠﺐ
[مسند الحميدي: 905 سنده حسن لذاته]
اور دیکھیے مسند أحمد بن حنبل :(18089 ،18093،18095،18098) ان سب طرق کی اسانید حسن لذاته ہیں،سنن دارمی:(369) سنده حسن لذاته، سنن ترمذى :(3535) سنده حسن لذاته ،سنن نسائي:(158) سنده حسن لذاته ،السنن الكبرى للنسائى :(131 ،145) سندهما حسن لذاته، صحيح ابن خزيمة: (17) سنده حسن ،حديث السراج:(2709) ،سنده حسن،معجم ابن الأعرابي:(1449) سنده حسن ،صحيح ابن حبان:(85) سنده حسن لذاته ،المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقى:(349 ،350) حسن،
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺃﺑﻲ ﻧﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ اﻟﻤﺒﺎﺭﻙ ﻧﺎ اﻟﺼﻌﻖ اﺑﻦ ﺣﺰﻥ ﻋﻦ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺤﻜﻢ ﻋﻦ اﻟﻤﻨﻬﺎﻝ ﺑﻦ ﻋﻤﺮﻭ ﻋﻦ ﺯﺭ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺶﻋﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ( ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻗﺎﻝ ﻛﻨﺖ ﺟﺎﻟﺴﺎ ﻋﻨﺪ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﺠﺎءﻩ ﺭﺟﻞ ﻣﻦ ﻣﺮاﺩ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺻﻔﻮاﻥ ﺑﻦ ﻋﺴﺎﻝ ﻭﻫﻮ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺠﺪ ﻣﺘﻜﺊ ﻋﻠﻰ ﺑﺮﺩ ﻟﻪ ﺃﺣﻤﺮ ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻪ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﺮﺣﺒﺎ ﻣﺎ ﺟﺎء ﺑﻚ؟ ﻓﻘﺎﻝ ﻳﺎﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺟﺌﺖ ﺃﻃﻠﺐ اﻟﻌﻠﻢ، ﻗﺎﻝ ﻣﺮﺣﺒﺎ ﺑﻄﺎﻟﺐ اﻟﻌﻠﻢ ﺇﻥ ﻃﺎﻟﺐ اﻟﻌﻠﻢ ﻟﺘﺤﻒ ﺑﻪ اﻟﻤﻼﺋﻜﺔ ﻭﺗﻈﻠﻪ ﺑﺃﺟﻨﺤﺘﻬﺎ ﻭﻳﺮﻛﺐ ﺑﻌﻀﻬﺎ ﺑﻌﻀﺎ ﺣﺘﻰ ﻳﺒﻠﻐﻮا اﻟﺴﻤﺎء اﻟﺪﻧﻴﺎ ﻣﻦ ﺣﺒﻬﻢ ﻟﻤﺎ ﻃﻠﺐ
[تقدمة الجرح والتعديل :2/ 13سنده حسن]
یاد رکھیں فضائل ومناقب ورقائق وزھد وآداب میں ائمہ محدثین نے احکام کی احادیث کی نسبت قبول ورد کے اعتبار سے کچھ نرمی رکھی ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ