ادبی کتابوں کے مطالعہ کے حوالے سے بعض احباب وقتا فوقتا لکھتے رہتے ہیں کہ شعراء و ادبا کی اکثریت چونکہ ضلالت و گمراہی کا شکار رہتی ہے، لہذا انہیں پڑھنا درست نہیں ہے۔
جہاں تک مطالعہ کی بات ہے، تو ظاہر ہے اس میں ترجیحات قائم کرنا ضروری ہے، قرآن وسنت، فقہ و فتاوی، اصول، نحو و صرف وغیرہ کتابوں کے بعد ادب اور شاعری کی باری آتی ہے۔
جو طالبعلم مقررہ نصابی کتب پڑھنے کی فرصت نہیں پاتے، یا جو عالم دین درس و تدریس کے لیے بنیادی کتب کے مطالعہ سے ہی کنی کتراتے ہیں، ان کے سامنے ادب اور شعر و شاعری کے فضائل اور اس کے مطالعہ کی ترغیب لایعنی چیز ہے۔ بلکہ یہ افضل کو چھوڑ کر مفضول کی طرف دعوت ہے۔
لیکن یہ حقیقت ہے کہ ادب اور شعر وشاعری سے اہل علم کا ہمیشہ سے تعلق رہا ہے۔ اب تک ہمارے نظام تعلیم میں جو کتابیں بطور نصاب کے مقرر ہیں، ان میں ’دیوان المتنبی‘ جیسی کتاب کو بھی مقرر کرتے ہوئے، اس بات کی پرواہ نہیں کی گئی کہ صاحب دیوان متنبی یعنی نبوت کا جھوٹا دعویدار ہے!!
اس قسم کی ادبی کتابیں ابھی تک ہمارے نصاب میں شامل ہیں، تمام سلفی و غیر سلفی منہجی و غیر منہجی مدارس و جامعات میں آج تک انہیں پڑھایا جاتا ہے، بلکہ ان شخصیات اور ان کی کتابوں پر بیسیوں مقالہ جات لکھے جاچکے ہیں۔
برصغیر پاک وہند میں مسلکِ اہل حدیث کے مجدد مانے جانے والے بزرگ شیخ الکل فی الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی جیسی شخصیات اگر میر تقی میر، سودا اور میر درد جیسے شعراء کے دواوین کا مطالعہ کیا کرتے تھے، تو اس کا مطلب ہے کہ ایسی کتابوں پر پابندی لگانے کی بجائے، طالبعلموں کی ایسی تربیت کی ضرورت ہے کہ وہ ہر کتاب کو پڑھتے ہوئے اس سے وہی چیز اخذ کریں، جو اس کا اصل مقصد ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی قاری غالب اور میر جیسے شعراء کو احمد بن حنبل اور محمد بن عبد الوہاب جیسے بزرگوں کی طرح پڑھے گا، تو عقیدے کی تباہی و بربادی لازم ہے۔
بہرصورت اہل علم اور بزرگوں میں ایسا رجحان دیکھنے کو نہیں ملا کہ انہوں نے ادبی کتابوں کی قراءت اور مطالعہ پر سرے سے پابندی ہی لگادی ہو۔
باقی بات اگر ان مفکرین اور دانشوروں کی ہو، جن سے غلطیاں ہوئیں، لیکن مجموعی طور پر وہ اسلام کے دائرے میں ہی رہتے تھے، جیسا کہ سید قطب، مولانا مودودی، ابو الکلام آزاد وغیرہ، تو ایسی شخصیات کی خامیاں بیان کردینا اور غلطیاں نمایاں کردینا کافی ہے، کلی طور پر ان کی کتابوں سے تحذیر درست رویہ نہیں ہے۔
اسی طرح روایتی علمائے کرام میں بھی بڑے بڑے ارباب ادب اور اصحاب قلم گزرے ہیں، جیسا کہ مولانا ابو الحسن ندوی، مولانا اسماعیل سلفی، مولانا ماہر القادری، مولانا حنیف ندوی، پیر کرم شاہ الازہری، حافظ صلاح الدین یوسف اور موجودین میں مولانا تقی عثمانی، مولانا عبد المعید مدنی اور مولانا ارشاد الحق اثری وغیرہ، کسی بھی مسلک کے طالبعلموں کو ان شخصیات کو پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔ مسلکی و منہجی مسائل ہم نے اپنے اپنے علمائے کرام سے ہی لینے اور سیکھنے ہوتے ہیں، لیکن بحیثیت مسلمان جو دیگر مسالک کے لوگوں کے ساتھ ہمارا تعلق ہونا چاہیے، اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ہم دیگر مسالک کے اہل علم و قلم سے استفادے میں مسلکی تعصب کو حائل نہ ہونے دیں۔
محققِ اہل حدیث مولانا عزیر شمس مرحوم کی شخصیت اور اہل حدیث کے لیے ان کی خدمات سے کون واقف نہیں؟ لیکن ان کی مجالس میں شریک ہونے والے خوش نصیب جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے انہیں کس قدر اعتدال و انصاف کی نعمت سے نوازا تھا، اور وہ طالبعلموں کو جن کتابوں کے مطالعہ کی نصیحت کیا کرتے تھے، وہ لسٹ میں بھی سوشل میڈیا پر موجود ہے!
علماء کی سیر وسوانح کا مطالعہ کی عادت ضرور بنائیں، ایسی کتابوں میں علمائے کرام سے متعلق وہ باتیں بھی موجود ہوتی ہیں، جن کا براہ راست کسی موضوع سے تعلق نہیں ہوتا، اس وجہ سے وہ تفسیر، حدیث، عقیدہ، فقہ کی کسی کتاب میں نہیں ملتیں، لیکن علمائے کرام کی نشست و برخاست کے متعلق پڑھنے سے بھی طالبعلم کی ذہن سازی اور تربیت ہوتی ہے۔ مولانا اسحاق بھٹی کی تواریخ بالخصوص بزم ارجمنداں پڑھیں، سید نذیر حسین مرحوم پر فضل حسین بہاری مرحوم کی الحیاۃ بعد المماۃ پڑھیں، اسی طرح تنزیل صدیقی صاحب کی دبستان نذیریہ پڑھیں، یقینا اس سے درست فکر و عقیدہ پر شرح صدر بھی ہوگا اور ساتھ ساتھ قلب و نظر وسعت سے بھی ہمکنار ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔
#خیال_خاطر