سوال (1698)

جو حدیث آئی ہے کہ “من ادرک رکعة قبل ان تطلع الشمس فقد ادرك الصبح و من ادرك ركعة قبل ان تغرب الشمس فقد ادرك العصر” اس میں احناف کا موقف یہ ہے کہ مغرب کی نماز ہو جائے گی ، کیونکہ ناقص وقت میں شروع کی نماز اور ناقص وقت میں ختم کی، فجر کی نماز نہیں ہوگی کیونکہ مکمل وقت میں شروع کی ناقص میں ختم کی ہے ، اب عصر اور فجر کے بعد والے دونوں وقت مکروہ ہیں ، طلوعِ آفتاب اور غروب آفتاب دونوں وقت مکروہ ہیں ، یہ احناف ایک کو ناقص دوسرے کو مکمل کیسے کہتے ہیں ؟

جواب

یہ تقلید جامد کی وجہ سے ہو رہا ہے ، حدیث صحیح ہے تو پوری صحیح ہے ، مضطرب ہے تو پوری مضطرب ہے ، عجیب بات ہے کہ ایک حصے کو لینا ہے ، ایک حصے کو نہیں لینا ہے ، یہ تقلید ہے جیسا کہ علامہ رشيد أحمد لدھیانوی دیوبندی نے لکھا ہے : “غرضیکہ یہ مسئلہ ابھی تک تشنہ تحقیق ہے، لہذا ہمارا فتویٰ اور عمل امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مطابق ہی رہے گا ، اس لیے کہ ہم امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لیے قول امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلہ اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفہ مجتہد ہے”۔
[ارشاد القاري الي صحيح البخاري : 412]
سائل :
اصل مسئلہ یہ ہے کہ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب دونوں وقت مکروہ ہیں ، یعنی فجر کے بعد سے لے کر طلوع آفتاب پہلے اور عصر کے بعد سے لے کر غروب آفتاب سے پہلے کا وقت پھر ایک کو ناقص اور ایک کومکمل قرار دینا یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے ؟
جواب :
آپ کو کیسے سمجھ میں آئے گی ، وہ خود کہہ رہے ہیں کہ ہمیں سمجھ میں نہیں آتی ہے ہم مقلد ہیں ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ