سوال (3175)
ایک دوسرے کو مزاحیہ شاعری اور میمز بھیجتے ہیں، کیا یہ بھیجنا درست ہے؟ طنز و مزاح اور اس کے شرعی آداب پر رہنمائی کر دیں۔
جواب
اس پر کچھ باتیں عرض کی جا سکتی ہیں۔
أولا؛ اسلام میں اَصل اَمر سنجیدگی ہے۔ بندہ مومن جسے اپنی آخرت کی فکر ہو وہ ہر وقت کھیل کود اور ہنسی مزاح میں نہیں پڑتا۔ رسول اللہ ﷺ اور سلف صالحین کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے والے کے لیے یہ بات بالکل واضح ہے۔
ثانیاً: نفس کی ترویح کے لیے اللہ تعالی نے انسانی طبعیت کا ایک اہم حصہ ہنسی خوشی کو بھی بنایا ہے، لیکن یہ اَمر طارئ ہے، جسے صرف خاص حد تک اور خاص ضوابط کے ساتھ ہی رکھا گیا ہے۔ ان ضوابط میں سے کچھ ضوابط یہ ہو سکتے ہیں:
1. مذاق میں بھی جھوٹ سے اجتناب، اب ہمارے ہاں اسی نوے فیصد میمز مشتمل ہی جھوٹ پر ہوتے ہیں۔ خود سے گھڑے جاتے ہیں. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ “.
جو بندہ بات کرتے ہوئے دورغ گوئی سے کام لیتا ہے تاکہ لوگوں کو ہنسائے اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ (سنن أبي داود : ٤٩٩٠)
2. مزاح ہو، لیکن مذاق میں کسی کی شخصیت، ذات، رنگ، نسل وغيرہ کی تحقیر کا پہلو نہ ہو. جیسا کہ آج کل عمومی میمز اور کامیڈی شوز وغیرہ بھیجے جاتے ہیں۔ ان میں جگت بازی کے انداز واضح تحقیر و تذلیل کا پہلو نظر آ رہا ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
«الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ؛ لَا يَظْلِمُهُ، وَلَا يَخْذُلُهُ، وَلَا يَحْقِرُهُ».
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اس پر ظلم نہیں کرتا، اسے رسوا نہیں کرتا اور نہ ہی اس کی تحقیر کرتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : ٢٥٦٤)
3. ہر وقت ہنسی مزاح کا موڈ رکھنا، سنجیدگی اختیار نہ کرنا۔ یہ بھی عیب ہے۔ بلکہ عقل میں خلل کی نشانی ہے، مروت کے خلاف ہے۔ بلکہ سنجیدگی کی جگہ سنجیدگی اور ہنسی مزاح کی جگہ ہنسی مزاح ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے آتا ہے؛
«كَانَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَبَادَحُونَ بِالْبِطِّيخِ، فَإِذَا كَانَتِ الْحَقَائِقُ كَانُوا هُمُ الرِّجَالَ».
’’صحابہ کرام بطور مزاح ایک دوسرے کی طرف خربوزے پھینکتے تھے لیکن جب حقائق (مثلاً غیرت و دفاع) کا معاملہ ہوتا تو وہ حقیقی مرد ہوتے۔‘‘ (الأدب المفرد للبخاري : ٢٦٦) جبکہ ہمارے ہاں سنجیدہ ترین مسائل و مشکلات کی کیفیت ہونے کے باوجود ہر وقت طنز ومزاح کا ماحول چل رہا ہوتا ہے۔ سنجیدگی تو گویا رخصت ہی ہوچکی۔ دن رات میمز چل رہے ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو بھجے جا رہے ہوتے ہیں، بلکہ اسے ہی عمومی مزاج بنا لیا گیا ہے۔
بہر حال اعتدال لازم ہے۔
اور یہ جاننا بھی بہت اہم ہے کہ حسنِ اخلاق اور کشادہ چہرے سے ملنے اور ہر وقت غیر سنجیدگی اختیار کیے رکھنے میں فرق ہے۔
ساتھ کچھ سابقہ پوسٹیں لف کر رہا ہوں…
سیدنا جرير بن عبداللہ بن جابر البَجَلی القسري اليماني الكوفي رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
مَا حَجَبَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ أَسْلَمْتُ، وَلَا رَآنِي إِلَّا تَبَسَّمَ فِي وَجْهِي.
“میرے اسلام کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کبھی بھی مجھے (اپنی مجلس سے) منع نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب بھی مجھے دیکھتے تو میرے سامنے مسکرا دیتے.”
( صحيح البخاري : ٣٠٣٥)
فائدة: جرير بن عبد الله البجلی رضي الله عنه يقال له يوسف هذه الأمة كما قال ابن حجر في التقريب)
امام ابن بطال رحمہ اللہ (المتوفی : ٤٤٩ھ) فرماتے ہیں:
لقاء النَّاس بالتَّبسُّم وطلاقة الوجه من أخلاق النُّبوة وهو مناف للتكبُّر، وجالب للمودَّة.
“لوگوں سے مسکر کر اور کشادہ چہرے سے ملنا اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں سے ہے، یہ تکبر دور کرتا اور محبت لاتا ہے.”
(شرح البخاری لابن بطال : ١٩٣/٥ ،مكتبة الرشد الرياض)
امام ابو حاتم ابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی : ٥٤٣ھ) فرماتے ہیں:
الواجب على العاقل أن يستميل قلوب الناس إليه بالمزاح وترك التعبس.
” عقل مند پر لازم ہے کہ اختیارِخوش طبعی و ترکِ خشک روی کے ساتھ لوگوں کے دل اپنی طرف مائل کرے.”
(روضة العقلاء ونزهة الفضلاء : ٧٧ ،دار الكتب العلمية بيروت)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہلکی مسکراہٹ اور ہنسی بہترین چیز ہے، اور اہلِ علم میں ہنسی ترک کرنے والے دو قسم کے ہوتے ہیں:
ایک وہ جو ادب، اللہ کے خوف، اور اپنے مسکین نفس پر غم کے باعث ہنسی چھوڑ دیتے ہیں، ان کا یہ عمل قابل تعریف ہے۔
دوسرے وہ جو حماقت، تکبر، یا دکھاوے کی وجہ سے ہنسی چھوڑتے ہیں، ان کا یہ عمل مذموم ہے۔
جو شخص بہت زیادہ ہنسی مذاق کرتا ہے اسے بے وقار وبے قدر سمجھا جاتا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بوڑھوں کی نسبت جوانوں میں ہنسی زیادہ معقول اور قابل عذر ہے۔
رہی بات مسکراہٹ اور چہرے کی بشاشت کی تو یہ سب سے بلند مقام ہے۔
نبی کریم ﷺنے فرمایا:
“تمہارا اپنے بھائی کے چہرے پر مسکرانا صدقہ ہے۔” (سنن الترمذي : ١٩٥٦)
اور سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بھی مجھے دیکھا تو مسکرائے۔” (صحیح البخاري : ٣٠٣٥)
یہی اسلام کا اخلاق ہے۔ سب سے بلند مقام ان لوگوں کا ہے جو رات کو اللہ تعالیٰ کے سامنے روتے ہیں اور دن میں ہنستے مسکراتے اور ہشاش بشاش رہتے ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
“تم اپنے مال سے لوگوں کو نہیں نواز سکتے، اس لیے انہیں اپنے چہرے کی بشاشت سے خوش رکھو۔” (مسند البزار : ١٩٧٧)
یہاں ایک بات باقی رہتی ہے کہ جو شخص زیادہ ہنسی مذاق کرنے والا ہو، اسے اس میں کمی کرنی چاہیے اور اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہیے تاکہ لوگ اس سے اکتاہٹ محسوس نہ کریں۔
اور جو شخص ہمیشہ سنجیدہ اور خشک مزاج ہو، اسے چاہیے کہ مسکرائے اور اپنے اخلاق کو بہتر کرے اور اپنے خراب اخلاق پر ملامت کرے۔
ہر وہ رویہ جو اعتدال سے ہٹ جائے، قابل مذمت ہے۔
نفس سے مجاہدہ اور اس کی تادیب بہت ضروری ہے۔ (سير أعلام النبلاء: ١٠/ ١٤٠ – ١٤١)
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ