سوال (768)
آج میں اس وقت حیران رہ گیا، جب فاضل مدینہ یونیورسٹی ایک سلفی بھائی جو ایک نجی سکول چلا رہے ہیں، رزلٹ کے موقع پر ایک ترانے پر یا حمد پر بچیوں سے ٹیبلو کروا رہے تھے، شیوخ روشنی ڈال دیں اس کام کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب
سلفی یا غیر سلفی، فاضل مدینہ یونیورسٹی یا غیر فاضل مدینہ یونیورسٹی کی بات میرے خیال سے نہیں ہے، اصل چیز یہ ہے کہ بچوں اور بچیوں کے ٹیبلو کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ دیکھیں اگر صرف محدود دائرے میں ہے، صرف اپنے محب کی عکاسی مقصود ہے، تو بچے اور بچیاں بھی ٹیبلو پیش کر سکتے ہیں، بس میوزک اور موسیقی نہ ہو، البتہ کوشش یہ ہو کہ بچے الگ کریں اور بچیاں الگ کریں، جہاں تک بالغ بچیوں کی بات ہے تو وہ خواتین تک محدود رہیں، مرد احباب کے لیے وہ ٹیبلو نہیں ہونا چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
کوئی ترانہ یا نظم لگا کر اوپر ٹیبلو پیش کرنا اصلا تو یہ غیر مسلموں کی نقالی ہے، بلکہ اس میں فساق و فجار لوگوں کی مشابہت بھی ہے کہ وہ گانے پر ذرا کھل کر ناچ لیتے اور ایکٹنگ کر لیتے ہیں یہاں اسی کے نارمل اَنداز کے طور پر ترانے وغيرہ پر عملی حرکات سر انجام دے لی جاتی ہیں یا کوئی کہانی لکھ کر لڑکیوں سے اُس پر ایکٹنگ کروا لی جاتی ہے۔ اس کی خوب حوصلہ شکنی ہونی چاہیے، یہ کوئی مستحسن عمل نہیں، آہستہ آہستہ اس میں اضافے ہوتے جائیں گے۔ اگر بالکل چھوٹی چار پانچ سال تک کی بچیاں ہوں اور خواتین کے درمیان ہی رہے تو کچھ گنجائش شاید نکال لی جائے۔ لیکن قریب اَز بلوغت اور سمجھدار بچیوں کو اِس سے بچانا لازم ہے وگرنہ مزاج وہی ناچنے ٹاپنے کا بن جاتا ہے ۔ بالخصوص بعض جگہوں پر اِس طرح کے ٹیبلوز کی ویڈیوز بنائی جاتی اور سوشل میڈیا پر اپلوڈ کی جاتی ہیں، بعض مذہبی اِدارے بھی اس میں ملوث ہیں، یہ بالکل بھی مناسب نہیں، مسلمان عورت کا ایک اپنا عزت و وقار ہوتا ہے کہ کل کو یہی بچیاں جوان ہوں گی اور اُن کی ایکٹنگ کی یہ ویڈیوز سوشل میڈیا وغيرہ پر چل رہی ہوں، عجیب و غریب نامناسب سی بات ہے۔ واللہ أعلم۔
فضیلۃ الباحث حافظ محمد طاہر حفظہ اللہ
نیز تمثیل کا فی نفسہ شرعی حکم بھی محل نظر ہے۔
فضیلۃ الباحث عبد العزیز ناصر حفظہ اللہ