تراویح میں بلا ضرورت مصحفِ قرآنی تھامنا
نفل نماز کے دوران مصحف سے دیکھنے کی اجازت کے بارے سلف صالحین کے کئی آثار مروی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ عمل صرف تین حالتوں میں بامر مجبوری جائز ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ
1۔ اگر امام صاحب، قرآن کے حافظ نہ ہوں تو وہ مصحف سے دیکھ کر امامت کروا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ام المومنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (٥٨هـ) کے غلام ذکوان رحمہ اللہ کروایا کرتے تھے۔ (مصنف ابن أبي شيبة : ٢/ ١٢٣) اور امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (١١٠هـ) کا فتوی ہے۔ (أيضا)
2۔ اگر سامع/فاتح کو قرآن یاد نہ ہو تو وہ مصحف سے امام صاحب کی تصحیح وغیرہ کروانے کے لیے تھام سکتا ہے جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ (٩٣هـ) کا غلام ان کے پیچھے کھڑا ہوتا تھا، جب آپ کہیں بھولتے تو وہ لقمہ دے دیتا۔ (مصنف ابن أبي شيبة : ٢/ ١٢٣)
3۔ اگر کوئی اکیلا لمبا قیام کرنا چاہتا ہو اور حافظ نہ ہو تو وہ قرآن مجید سے دیکھ کر قراءت کر لے جیسا کہ امام محمد بن سیرین، امام یحیی بن سعید انصاری (المصاحف لابن أبي داود، صـ ٤٥٠) امام عطاء بن ابی رباح (مصنف ابن أبي شيبة : ٢/ ١٢٣) وغیرہم سے ثابت ہے۔
ان تین صورتوں کے علاوہ کوئی چوتھی صورت سلف صالحین سے ثابت نہیں، لہذا بلا ضرورت محض اوپر سے دیکھ کر سننے کے لیے قرآن مجید ہاتھ میں پکڑ لینا نماز کی کئی ایک سنتوں کے دائمی ترک کا سبب ہونے کی وجہ سے درست نہیں؛
١. نماز میں دونوں ہاتھ باندھنا سنت ہے، یہ عمل اس کے ترک کا باعث ہے۔
٢. نماز میں نظر جھکا کر رکھنا مسنون ہے، جبکہ اس سے قیام میں مسلسل نظر مصحف پر رہتی ہے۔
٣. نماز میں بلا ضرورت حرکت درست نہیں، جبکہ صفحات پلٹنے کے لیے ہاتھ مسلسل حرکت میں رہتا ہے۔
٤. یہ نماز کے خشوع کے بھی منافی ہے۔
٥. مصحف ہاتھ میں پکڑ کر قرآن مجید کے استماع میں بھی شدید خلل واقع ہوتا ہے، دل سے قرآن سننے کی بجائے آیات کے آغاز و اختتام اور صفحات کی جہات پر نظریں لگی رہتی ہیں۔
٦. اس پر قرآن و حدیث یا سلف کے عمل سے بھی کوئی دلیل نہیں ملتی۔
لہذا عام لوگوں کا اوپر مذکور سنتوں کو مسلسل ترک کر کے ایک نیا طریقہ نکال لینا درست نہیں اور نہ ہی اکثر اہلِ علم ایسے توسع کی اجازت دیتے ہیں۔ بلکہ سلف صالحین کے بعض آثار میں بالکل صراحت ہے کہ اس عمل کی اجازت صرف بامر مجبوری ہے۔
جیسا کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ (١١٠هـ) فرماتے ہیں :
«لَا بَأْسَ أَنْ يَؤُمَّ فِي الْمُصْحَفِ، إِذَا لَمْ يَجِدْ» يَعْنِي مَنْ يَقْرَأُ ظَاهِرًا.
’’مصحف سے دیکھ کر امامت کروانے میں کوئی حرج نہیں، اگر زبانی امامت کروانے والا کوئی نہ ملے۔‘‘
(مصنف ابن أبي شيبة : ٢/ ١٢٣)
⇚اسی طرح قتادہ رحمہ اللہ (١١٧هـ) بیان کرتے ہیں :
«أَنَّهُمَا قَالَا: فِي الصَّلَاةِ فِي رَمَضَانَ: تُرَدِّدُ مَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ، وَلَا تَقْرَأُ فِي الْمُصْحَفِ إِذَا كَانَ مَعَكَ مَا تَقْرَأُ بِهِ فِي لَيْلَتِهِ».
’’حسن بصری اور سعید بن مسیب (٩٤هـ) رحمہما اللہ نے رمضان کے قیام کے بارے فرمایا کہ اگر آپ کو اتنا قرآن یاد ہو جس سے آپ قیام اللیل کر سکتے ہیں تو مصحف سے نہ پڑھیں بلکہ جتنا یاد ہے اسے دہراتے رہیں۔‘‘ (المصاحف لابن أبي داود، صـ ٤٥٠)
⇚اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ (١٧٩هـ) سے ایسے شخص کے بارے پوچھا گیا جو لوگوں کو رمضان میں مصحف سے دیکھ کر قیام کرواتا ہے تو انہوں نے فرمایا :
«لَا بَأْسَ بِذَلِكَ إِذَا اضْطُرُّوا إِلَى ذَلِكَ».
’’اگر لوگ اس پر مجبور ہو جائیں تو کوئی حرج نہیں۔‘‘ (المصاحف، صـ ٤٦٠)
✿۔ بہرحال خلاصہ کلام یہ ہے کہ نمازِ تراویح یا کسی نفل نماز میں بحالت مجبوری تین صورتوں کے علاوہ مصحف سے پڑھنا یا اس سے دیکھ کر سننا ہرگز درست نہیں، اس عمل کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور لوگوں کو ترغیب دینی چاہیے کہ وہ تلاوتِ قرآن کو خشوع کے ساتھ زبانی سننے کی عادت بنائیں جیسا کہ ہمیشہ سے مسلمان کا عمل ہے۔ واللہ أعلم۔
— حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ
یہ بھی پڑھیں: دعائے یونس علیہ السلام