اچھی تربیت کریں، بچے پر اعتماد رکھیں، باقی سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
یہ “سٹیٹس کو” کو تسلیم کرنے اور اسے تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام کرنے کا سب سے اچھا بہانہ ہے۔
بات بھی ٹل جاتی ہے اور آپ کا بھرم بھی رہ جاتا ہے کہ ہم نے کونسا کوئی غلط بات کی ہے۔۔۔!!!
تربیت کی اہمیت سے کوئی احمق ہی انکار کرے گا۔ لیکن جب آپ تربیت کو احتیاطی تدابیر کے مقابل لا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تربیت کی موجودگی میں انکی کوئی اہمیت نہیں۔۔۔۔ اور پھر اوپر سے “اعتماد” کا تڑکا لگاتے ہیں کہ اولاد کی اچھی تربیت کریں اور اس پر اعتماد کریں اور بس۔۔۔۔ یعنی اسے فتنوں سے بچانے کی ٹینشن نہ لیں اور نہ اس سلسلے میں کوئی کوشش کریں۔۔۔
یہ وہ “جوا” ہے جو شیطان آپ کو کھیلاتا ہے۔ کہ بس اچھی تربیت کرو اور اس دنیا کے “جنگل” میں جھونک دو۔ خود ہی اولاد شکاریوں سے بچ جائے گی۔ حفاظت کیلئے کسی ہتھیار وغیرہ کی ضرورت نہیں۔۔۔۔
اول تو “اچھی تربیت” ہی ایسی مبہم اصطلاح ہے کہ جس کا بذات خود نہ سر ہے نہ پیر۔ ممکن ہے شرعی پردہ میرے لیے بہترین تربیت کا حصہ ہو اور آپ کیلئے محض دقیانوسیت۔۔۔۔ و علی ھذا القیاس
اور پھر “اعتماد” کا بھی کیا ہی کہنا۔۔۔۔
یعنی مجھے یقین ہے کہ میرا ڈرائیور دنیا کے بہترین ڈرائیورز میں سے ایک ہے، تو اگر میں اسے سیٹ بیلٹ لگا کر ڈرائیونگ کی تاکید کرتا ہوں تو یہ گویا اسکی صلاحیتوں پر عدم اعتماد کے مترادف ہے۔۔۔!!!
کیا خوب لاجک ہے نا
اور ہاں، اگر تربیت ہی سب کچھ ہوتی تو میرا نہیں خیال کہ نوح اور یعقوب علیھما السلام سے بہتر تربیت کوئی اور کر سکتا ہے۔ نوح علیہ السلام کا بیٹا کفر پر مرا اور یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں نے مل کر بھائی سے جان چھڑانے کی سازش کی۔

یہ بھی پڑھیں: ایک تربیت یافتہ ماں ایک کامیاب نسل 

تو اگر حفاظتی تدابیر اس بات کی ضمانت نہیں کہ بچہ فتنوں سے بچ جائے گا تو تربیت بھی ہرگز اس بات کی ضمانت نہیں ۔۔۔ انگریزی میں کہتے ہیں:

It goes bith ways and you can not eat your cake and have it
یعنی یہ دو دھاری تلوار ہے اور یہ نہیں ہو سکتا کہ “چِت بھی میری پَٹ بھی میری، اَنْٹا میرے باپ کا”۔۔۔۔
الغرض: تربیت اور اعتماد
یہ دو لفظ اس لبرل، سیکولر، فیمنسٹ ماحول کے کسی بھی باغی کو چپ کرانے کے بہترین ہتھیار ہیں۔۔۔
یقین نہ آئے تو میری پچھلی پوسٹ پر کمنٹس ملاحظہ فرمائیں۔

رضوان اسد خان