تربیتِ اولاد کے ابرہیمی پہلو

اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کو بہت سے فضائل و مناقب اور بے پناہ خوبیوں سے نواز رکھا تھا۔
ان خوبیوں میں سے ایک بہت ہی اہم اور وقتِ حاضر کی ضرورت اپنی اولاد کی اچھی اور اعلیٰ تربیت کرنا ہے۔
اولاد کی تربیت کے حوالے سے جو نمایا پہلو سیرتِ ابراہیم علیہ السلام سے ملتے ہیں، اگر انہیں کو ہی مدِ نظر رکھ کر اولاد کی تربیت کی جائے تو یقیناً ہماری اولادیں بھی ایک مثالی کردار ادا کریں۔

تربیتِ اولاد کے ابرہیمی پہلو

1: آپ کرایہ دار ہیں یا ذاتی گھر بنانا ہے تو ایسی جگہ، سوسائٹی کا انتخاب ہو جہاں قریب ہی اللہ کے گھر مساجد و مدارس ہوں، تاکہ ہمارے بچہ بھی بڑوں کے ساتھ مساجد و مدارس میں اپنی علمی اور فکری پیاس بُجھا سکیں۔
بدقسمتی سے آج ہماری توجہ اس پہلو کی طرف نہیں جاتی بلکہ ہم ایسی جگہ کے متلاشی ہوتے ہیں جہاں سوئی گیس، سکولز، ہوسپٹل، مارٹ، پارک اور بازار ہوں۔ اگرچہ یہ سہولیات بھی وقت کی ضرورت ہے لیکن ایک مومن کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت مساجد و مدارس ہیں۔ جس طرف ہماری سوچ جاتی ہی نہیں۔
جبکہ ابراہیم علیہ السلام نے یہ سب سہولیات کی بجائے اللہ کے گھر کو ترجیح دی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ

اے ہمارے رب! بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو اس وادی میں آباد کیا ہے، جو کسی کھیتی والی نہیں، تیرے حرمت والے گھر کے پاس، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم کریں۔ (ابراہیم 37)

2: اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے اچھے اور تعلیم یافتہ استاد کا انتخاب کریں جو آپکے بچہ کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس اور حکمت و دانائی سے بھی آراستہ کرے۔
ہمارے ہاں یہ پہلو بھی مفقود ہوچکا ہے بس جو ملا، جیسا ملا اسے قبول کرلیا جاتا ہے جبکہ ابراہیم علیہ السلام باقاعدہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

اے ہمارے رب! اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انھیں کتاب و حکمت سکھائے اور انھیں پاک کرے، بے شک تو ہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ (البقرہ 129)

3: والدین کو چاہیے کہ اپنی اولاد کی کامیابی، ترقی اور حصول علم کیلئے دعاؤں کا بھی اہتمام کریں کیوں کہ یہ دعائیں بچوں کو مزید نکھار کر معاشرہ کا ایک مثالی فرد بنا دیتی ہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں۔

رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ

اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد میں سے بھی، اے ہمارے رب! اور میری دعا قبول کر۔ (ابراہیم 40)

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِي وَبَنِيَّ أَن نَّعْبُدَ الْأَصْنَامَ۔

اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنادے اور مجھے اور میرے بیٹوں کو بچا کہ ہم بتوں کی عبادت کریں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ لَا شَكَّ فِيهِنَّ: دَعْوَةُ الْوَالِدِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ”.

تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں، ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں: باپ کی دعا، مسافر کی دعا، مظلوم کی دعا۔ (ابوداؤد 1905)

4: والدین کو چاہئے کہ اپنی اولاد کے دلوں میں اسلام اور شرعیت کی محبت پیدا کرنے کیلئے نیکی کے کام میں شریک کیا جائے۔ نماز کیلئے مسجد آتے ہوئے، صدقہ و خیرات کرنے میں اور دیگر اعمالِ صالحہ میں اولاد کو شامل کیا جائے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے لگے تو اپنے بیٹے کو بھی ساتھ شامل کیا۔
ارشادِ باری ہے:

وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔

اور جب ابراہیم علیہ السلام اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہا تھا اور اسماعیل بھی۔ اے ہمارے رب! ہم سے قبول فرما، بے شک تو ہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ (البقرہ127)

5: تربیتِ اولاد کے لیے ایک بہت اہم اور ضروری پہلو اپنی اولاد سے مشورہ طلب کیے جائیں، بلخصوص اولاد کے ذاتی معاملات میں تو لازمی مشورہ کر کے اعتماد میں لیا جائے۔
بچوں کے ازدواجی رشتہ قائم کرتے وقت بچوں کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کے بارے میں مشاورت کی جائےجیسے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بچہ سے مشورہ والا انداز اپنایا۔
ارشادِ باری ہے:

فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ۔

پھر جب وہ اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو اس نے کہا اے میرے چھوٹے بیٹے! بلاشبہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ بے شک میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، تو دیکھ تو کیا خیال کرتا ہے؟ اس نے کہا اے میرے باپ! تجھے جو حکم دیا جا رہا ہے کر گزر، اگر اللہ نے چاہا تو تو ضرور مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائے گا۔ (الصافات 102)۔

تو چونکہ نبی کا خواب بھی وحی ہوتا ہے، اس لیے انھوں نے اسے اللہ کا حکم سمجھ کر کسی بھی تردّد کے بغیر اس پر عمل کا پکا ارادہ کر لیا اور اپنے بیٹے سے پوچھا، پوچھنے کا مطلب یہ نہ تھا کہ اگر وہ نہ مانتا تو وہ اللہ کے حکم پر عمل نہ کرتے، بلکہ وہ اپنے ساتھ بیٹے کو اللہ کے حکم کی اطاعت میں شریک کرنا چاہتے تھے اور انھیں امید تھی کہ بیٹا اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے ضرور آمادگی کا اظہار کرے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں حلیم لڑکے کی بشارت دی تھی اور واقعی بیٹے نے یہ کہہ کر حلیم ہونے کا ثبوت دیا کہ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ اے میرے باپ! تجھے جو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر گزریں،

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری اولادوں کو بھی معاشرہ کا ایک بہترین اور مثالی کردار ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

تحریر: ابو محمد اویس قرنی

یہ بھی پڑھیں: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی سیرت و سوانح