سوال (2620)
تاریخ ولادت و وصالِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم
حصہ اوّل: امام ابوبکر بن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں کہ:
عن عقان عن سعید بن مینار عن جابر و ابن عباس انھما قال ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین الثانی عشر من شھر ربیع الاول۔
ترجمہ: عقان سے روایت ہے وہ سعید بن مینا سے روایت فرماتے ہیں اور وہ حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے راوی کہ یہ دونوں (حضرت جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں پیر کے روز بارہ کے روز بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ (سیرۃ انبویہ لابن کثیر جلد ا صفحہ ۱۹۹، البدایہ والنہایہ جلد ۲، صفحہ ۲۶۰)
اس روایت کی سند بھی صحیح ہے تو ثابت ہوا کہ جلیل القدر دو صحابہ کرام سے باسند صحیح یہ ثابت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ ۹ بیع الاول کے تاریخ ہونے کی رٹ لگانا باطل و مردود ہے۔ تمام عالم میں ولادت کی تاریخ ۱۲ ہی ہے جس کا انکار کرنا ناممکن ہے۔ جس حدیث کو فقیر نے پیش کیا تمام اہلسنت کے نزدیک معتبر ہے۔ اس حدیث کے راویوں کی توثیق جلیل القدر آئمہ محدیثین کرام سے آپ ملاحظہ کریں۔
(۱) اس کے پہلے راوی خود امام ابوبکر بن شیبہ ہیں جو امام بخاری و امام مسلم کے استاد ہیں۔ جو جلیل القدر آئمہ محدیثین کی تصریحات کی رو سے ثقہ حافظ ہیں۔ (تہذیب التہذیب جلد ۶، صفحہ ۳۔۴،) متصل سند کے ساتھ امام بخاری نے ان سے ۲۲روایات صحیح بخاری میں۔ امام مسلم نے ۱۵۲۸ روایات صحیح مسلم میں امام نسائی نے ۶ روایات سنن نسائی میں امام ابوداؤد نے ۶۰ روایات سنن ابوداؤدمیں امام ابن ماجہ نے ۱۱۵۱ روایات سنن ابن ماجہ میں نقل کی ہیں۔
(۲) اس روایت کے دوسرے راوی عقان ہیں جو کہ بلند پایہ امام ثقہ صاحب ضبط اور اتقان تھے۔ خلاصۃ التہذیب صفحہ ۲۶۸، امام عجلی نے کہا کہ وہ ثقہ اور صاحب سنت تھے (تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۱، )امام ابن معین نے ان کو اصحاب الحدیث بلند پایہ میں شمار کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۳، )امام ابن سعد نے کہا کہ وہ ثقہ ثبت حجت اور کثیر الحدیث تھے۔ امام ابن خراش نے کہاکہ وہ ثقۃ من خیار المسلمین تھے۔ ابن قانع نے کہا کہ وہ ثقہ اور مامون تھے۔ابن حبان نے ان کوثقات میں شمار کیا ہے ۔(تہذیب التہذیب جلد ۷، صفحہ ۲۳۴، )امام ذہبی نے کہا کہ وہ مشائخ الاسلامیں سے تھے ۔ آئمۃ العلام میں سے تھے۔ امام عجلی نے ثبت اور صاحب سنت کہا (میزان الاعتدال ،جلد ۳ ، صفحہ ۸۱) امام ابن معین نے ان کو پانچ بلند اصحاب الحدیث میں شمار کیا۔ امام ابو حاتم نے ثقہ متقن متین کہا(میزان الاعتدال ،جلد ۳ ، صفحہ ۸۲،چشتی)
(۳) تیسرے راوی سعید بن مینار ہیں۔ امام ابن معین اور امام ابو حاتم نے ان کو ثقہ کہا۔ ابن حبان نے ثقات میں شمار کیا ۔ امام نسائی نے الجرح و التعدیل میں ثقہ کہا (تہذیب التہذیب جلد ۴، صفحہ ۹۱)
امام ابن کثیر رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
وھذا ھو المشھور عند الخمھور ۔ جمہور علماء کے نزدیک یہی مشہور ہے (سیرۃ النبویہ جلد ۱، صفحہ ۱۹۹)
عن سعید بن جبیر عن ابن عباس ولد انبی صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من ربیع الاوّل ۔
ترجمہ: حضرت سعید بن جبیر نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہعنہم سے روایت کی ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت عام الفیل میں۔ پیر کے روز ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوئی ۔ (تلخیص المستدرک ،جلد ۲، صفحہ ۶۰۳)
امام ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ : ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لا ثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت پیر کے روز ربیع الاوّل کی بار ہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی ۔ (تاریخ طبری ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۵)
امام ابن ہشام نے محمد بن اسحاق کا قول نقل فرمایا کہ : ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین لا ثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاوّل عام الفیل ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پیر کے دن بارہویں ربیع الاوّل کو عام الفیل میں ہوئی۔(السیرۃ النبویہ، لابن ہشام ، جلد۱، صفحہ ۱۸۱،چشتی)
محدث ابن جوزی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ : قال ابن اسحاق ولد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل ۔
امام ابن اسحاق نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو عام الفیل میں ہوئی۔(الوفاء جلد ۱ صفحہ۹۰) امام ابن اسحاق کا یہ قول ان کتب میں بھی موجود ہے ۔ (سبل الھدیٰ و الرشاد جلد ۱، صفحہ ۳۳۴، شیعب الایمان بیہقی، جلد ۲، صفحہ ۴۵۸، السیرۃ النبویہ مع الروض الانف جلد ۳ ص ۹۳)
امام ابن جوزی نے اپنی دیگر کتب میں بھی سرکار اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل کو قرار دیا ہے ۔ (بیان المیلاد النبوی، صفحہ ۳۱ ۔ مولد العروس صفحہ ۱۴)
علامہ ابن خِلدون لکھتے ہیں کہ : ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الاوّل ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت عام الفیل کو بارہویں ربیع الاوّل کو ہوئی ۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد ۲، صفحہ ۷۱۰)
امام ابو الفتح محمد بن محمد بن عبداللہ بن محمد بن یحییٰ بن سید الناس الشافعی الاندلسی لکھتے ہیں کہ :ولد سیدنا و نبینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت من شھر ربیع الاوّل عام الفیل (عیون الاثر، جلد ۱ ،ص۲۶) ، ہمارے سردار اور ہمارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل شریف کو عام الفیل میں ہوئی ۔
امام ابن حجر مکی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ : وکان مولدہ لیلۃ الاثنین لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من شھر ربیع الاوّل ۔ (النعمۃ الکبری علی العالم صفحہ ۲۰) ، اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت پیر کی رات بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی ۔
امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : عن محمد بن اسحاق ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل ۔ (مستدرک جلد ۲،ص ۶۰۳)
امام المغازی محمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی ۔
امام برہان الدین حلبی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں : عن سعید بن المسیب ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عندالبھار ای وسطہ و کان ذلک لمض اثنی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل ۔ (سیرت حلبیہ، جلد۱،ص ۵۷)
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت باسعادت بہار نہار کے قریب یعنی وسط میں ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو ہوئی۔
جلیل القدر محدث امام بیہقی لکھتے ہیں کہ : ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوم الاثنین عام الفیل لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت من شھر ربیع الاوّل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پیر کے دن عام الفیل میں ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔ (دلائل النبوت بیہقی، جلد ۱ صفحہ ۷۴،چشتی)
جلیل القدر محدث امام ابن حبان لکھتے ہیں کہ: قال ابو حاتم ولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم عام الفیل یوم الاثنین لاثنتی عشرۃ مضت من شھر ربیع الاوّل۔ امام ابو حاتم نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت عام الفیل کے سال پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی ۔ (سیرۃ البنویہ و اخیار الخلفاء، ص ۳۳)
محدث جلیل امام سخاوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں کہ: ولد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم فی یوم الاثنین عند فجرہ لاثنتی عشرۃ لیلۃ مضت ربیع الاوّل عام الفیل۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم عام فیل ربیع الاوّل پیر کے دن فجر کے وقت ۱۲ کی رات میں پیدا ہوئے۔ (التحفۃ اللطیفۃ، جلد ۱، ص ۷)
امام ابوالحسن علی بن محمد ماوردی (متوفی ۴۵۰ھ) لکھتے ہیں کہ: لانہ ولد بعد خمسین یومامن الفیل و بعد موت ابیہ فی یوم الاثنین الثانی عشرمن شھر ربیع الاوّل ، عام الفیل کے پچاس روز بعد والد گرامی کے وصال کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ماہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ کو پیدا ہوئے۔(اعلام النبوۃ، جلد ۱، ص ۳۷۹)
معروف سیرت نگار ملامعین واعظ کاشفی لکھتے ہیں۔مشہور ہے کہ ربیع الاوّل کے مہینے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم تشریف لائے اور اکثر کہتے ہیں کہ ربیع الاوّل کی بارہ تاریخ تھی۔(معارج النبوت،ج۱ ،ص ۳۷،باب سوم،چشتی)
مولانا عبدالرحمٰن جامی (متوفی ۸۹۸ھ) لکھتے ہیں کہ : ولادت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بتاریخ ۱۲ ربیع الاوّل بروز پیر واقعہ خیل سے پچیس دن بعد ہوئی۔(شواہد البنوت فارس، ص،۲۲۔اردو،ص۵۶)
محدث جلیل سید جمال حسینی علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں کہ : مشہور قول یہ ہے اور بعض نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم ربیع الاوّل کے مہینہ میں پیدا ہوئے ۔ ۱۲ ربیع الاوّل مشہور تاریخ ہے ۔ (رسالت مآب ترجمہ روضۃ الاحباب از مفتی عزیز الرحمٰن صفحہ ۹)
امام ذہبی لکھتے ہیں کہ : و قال ابو معشر نجیع ولد لاثنتی عشرۃ لیلۃ خلت من ربیع الاوّل ۔ ابو معشر نجیع فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم بارہ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے ۔ (سیرت النبویہ للذہبی ،ج۱،ص،۷)
محدث جلیل ملاعلی قاری (متوفی ۱۰۱۴ھ) لکھتے ہیں کہ : و المشھور انہ ولد فی یوم الاثنین ثانی عشر ربیع الاوّل ، اور مشہور یہی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پیر کے روز بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی ۔(الموردالروی،ص۹۸)
شارح بخاری امام قسطلانی لکھتے ہیں کہ : و المشھور انہ دلد یوم الاثنین ثانی عشر شھر ربیع الاوّل ۔ اور مشہور یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم پیر بارہ ربیع الاوّل کو پیدا ہوئے۔(مواہب اللدنیہ،ج۱،ص ۱۴۲)
امام زرقانی لکھتے ہیں کہ:و قال ابن کثیر وھو المشھور عند الجمھورو بالغ ابن جوزی و ابن الجزار نقلا فیہ الاجماع وھو الذی علہہ العمل
امام ابن کثیر نے فرمایا کہ جمہور کے نزدیک بارہ ربیع الاوّل کو ولادت مشہور ہے ۔ ابن جوزی اور ابن الجزار نے مبالغہ سے اس اجماع نقل کیا ہے۔یہ وہ قول ہےجس پر (امت کا ) عمل ہے ۔ (زرقانی علی المواہب، ج۱، ص۱۳۲)
امام حسین بن محمد دیا ربکری (۹۸۲ھ) لکھتے ہیں کہ : والمشھور انہ ولد فی ثانی عشر ربیع الاوّل وھو قول ابن اسحاق ۔ اور مشہور یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی اور یہ ابن اسحاق کا قول ہے ۔ (تاریخ الخمیس، ج۱،ص ۱۹۲)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ : و قیل لاثنتی عشرۃ و ھو االمشھور۔اور کہا گیا ہے کہ حضور کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی تاریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل ہے اور یہی مشہور قول ہے ۔ (ماثبت بالسنۃ،ص۱۴۹۔مدارج النبوت ،ج۲،ص ۲۳،چشتی)
علامہ یوسف بن اسمعٰیل بنھانی لکھتے ہیں کہ:فی یوم الاثنین ثانی عشرمن شھر ربیع الاوّل رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت پیر کے دن بارہ ربیع الاوّل کو ہوئی۔(حجۃ اللہ علی العالمین صفحہ ۱۷۶)
ان کے علاوہ متعد د آئمہ نے باریخ ولادت بارہ ربیع الاوّل کی ہی صراحت کی ہے۔ مزید چند حوالہ جات درج ذیل ہیں۔(نسیم الریاض،ج۳،ص۲۷۵۔صفۃ الصفوۃ ،ج۱، ص۵۲۔اعلام النبوۃ ،ج۱،ص ۱۹۲۔ فقہ السیرۃ للغزالی،ص ۲۰۔ تواریخ حبیب الہٰ ،ص ۱۲۔وسیلۃ الاسلام ،ج۱،ص۴۴۔ مسائل الامام احمد،ج۱،ص ۱۴۔سرور المخزون ص۱۴،چشتی)
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی ولادت ماہ ربیع الاول کی بارہویں تاریخ کو ہوئی اور اس پر ہمارے پاس کثرت سے دلائل موجود ہیں- تاریخ ولادت میں اختلاف بھی ہے لیکن جمہور کے نزدیک بارہ ربیع الاول ہی درست ہے- ذیل میں کچھ کتابوں کے حوالہ جات پیش کیے جاتے ہیں جن میں تاریخ ولادت “بارہ ربیع الاول” کو ہی قرار دیا گیا ہے ملاحظہ ہو : ⬇
(1) سیرت ابن اسحاق بہ حوالہ الوفا، ص87
(2) سیرت ابن ہشام، ج1، ص107
(3) تاریخ الامم والملوک المعروف بہ تاریخ طبری، ج2، ص125
(4) اعلام النبوۃ، ص192
(5) المستدرک للحاکم، ج2، ص603
(6) عیون الاثر، ج1، ص33
(7) تاریخ ابن خلدون، ج2، ص394
(8) سیرت ابن خلدون، ص81
(9) المورد الروی للقاری، ص96
(10) محمد رسول اللہ، ج1، ص102
(11) حجۃ اللہ علی العالمین، ج1، ص231
(12) ماثبت بالسنۃ، ص31
(13) نور الابصار، ص13
(14) النعمۃ الکبری، ص20
(15) تاریخ اسلامی، ص35
(16) معارج النبوۃ، ج1، ص37
(17) مدارج النبوۃ، ج2، ص18
(18) سیرت حلبیہ، ج1، ص93
(19) المواہب اللدنیۃ، ج1، ص132
(20) بلوغ الامانی، ج2، ص189
(21) تاریخ الخمیس، ص196
(22) البدایہ والنھایہ، ج2، ص260
(23) بیان المیلاد النبوی، ص50
(24) فتح الباری، ج8، ص130
(25) فقیھہ السنۃ، ص60
(26) کتاب اللطائف، ص230
(27) سرور القلوب، ص11
(28) فتاوی رضویہ، ج26، ص411
(29) اسلامی زندگی، ص106
(30) فتاوی نعیمیہ، ص46
(31) تبرکات صدر الافاضل، ص199
(32) رسائل کاظمی، ص2
(33) سیرت رسول عربی، ص43
(34) ذکر الحَسین، ص116
(35) فتاوی مہریہ، ص110
(36) جنتی زیور، ص473
(37) دین مصطفی، ص84
(38) محمد نور، ص56
(39) کتاب فارسی، ص80
(40) انوار شریعت، ص9
(41) الخطیب، ص121
(42) تواریخ حبیب الہ، ص13
(43) جمال رسول، ص11
(44) رسالہ میلاد نمبر، ص24
(45) پیش لفظ تصفیہ مابین سنی و شیعہ
(46) فیصلہ ہفت مسئلہ، ص4
جواب:
دیوبندیوں، وہابیوں اور شیعوں کی کتب سے ثبوت : ⬇
(47) میلاد النبی از اشرف علی تھانوی، ص90
(48) سیرت خاتم الانبیا، ص19، 20
(49) ہادی عالم، ص43
(50) ہفت روزہ، مارچ1977، ص7، 18
(51) قصص النبیین، ج5، ص27
(52) نفحۃ العرب، ص141
(53) خاتون پاکستان رسول نمبر، ص36
(54) رحمت عالم، ص13
(55) ماہنامہ محفل لاہور، مارچ1981، ص65
(56) خاتون پاکستان رسول نمبر، ص839
(57) الشمامۃ العنبریہ، ص8
(58) رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، ص21، 22
(59) اکرام محمدی، ص270
(60) سیرۃ الرسول، محمد بن عبد الوہاب
(61) سید الکونین، ص60
(62) حیاۃ القلوب، ج2، ص112
کتب عامہ اور تاریخ ولادت:
(63) سید الوری، ج1، ص88
(64) سیرت احمد مجتبی، ج1، ص5، 147، 149
(65) تاریخ مکۃ المکرمہ، ج1، ص211
(66) الامین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، ص191
(67) محمد سید لولاک، ص118
(68) ہمارے پیغمبر، ص219
(69) ہمارے رسول پاک، ص43
(70) کتاب شان محمد، ص234
(71) محمد رسول اللہ، ص30
(72) شواہد النبوۃ، ص52
(73) معلومات عامہ، ص61
(74) نور کامل، ص36
(75) اسلامی تہذیب و تمدن، ص347
(76) ماہنامہ ترجمان اویس، ص71
(77) ماہنامہ نور الحبیب، اکتوبر1989، ص41
(78) سیرت کوئز، ص18
(79) موضع القرآن، ص33
(80) کیلنڈر از علامہ اکرم رضوی
(81) جان جاناں، ص117
(82) علموا اولادکم محبت رسول اللہ، ص99
(83) خاتم النبیین، ص118
(84) حیات محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، ص26
(85) ماہنامہ جام عرفان، اکتوبر1984
(86) ہفت روزہ الفقیہ، میلاد نمبر1932، ص140
(87) نورانی شمع ترجمہ قرآن مجید، ص13
(88) تاریخ اسلام از محمود الحسن، ص31
(89) تاریخ ملت، ص34
(90) رسالت مآب، ص9
(91) خاتم المرسلین، ص78
(92) تفسیر ضیاء القرآن، ج5، ص665
(93) حاشیہ الروض الانف، ج1، ص107
(94) ضیاے حرم، عید میلاد النبی نمبر، ص184
(95) سیرت سرور عالم، ص93
(96) خطبات الاحمدیہ، ص12
(97) اسلام کی پہلی عید، ص33
(98) فضیلت کی راتیں، ص27
(99) اشرف السیر، ص146
(100) سیرت رسول اکرم، ص7
(101) ماہنامہ التزکیہ، جولائی2002، ص11
(102) جواز الاختفال، ص12
(103) برکات میلاد شریف، ص3
(104) ہمارے حضور، 17
(105) زریں فرمودات، ص401
(106) بھاگوات پران، باب2، شلوک18 بہ حوالہ جان جاناں
(107) الدر المنتظم، ص89
(108) انوار شریعت، ص9
(109) قومی دائجسٹ، خصوصی نمبر1989، ص50
(110) الخطیب، ص121
(111) فقہ السیرۃ، ص60
(112) نشر الطیب از تھانوی، ص22
(113) حیات رسول، ص92
(114) محبوب کے حسن و جمال کا منظر، ص11
(115) عید میلاد النبی کی شرعی حیثیت، ص1
کتب نصاب، انگریزی کتب اور بارہویں تاریخ : ⬇
(116) خالد دینیات براے جماعت سوم
(117) دینیات براے جماعت پنجم، ص55
(118) الکتاب العربی براے جماعت ہفتم، ص16
(119) اردو کی ساتویں کتاب، ص17
(120) اردو کی آٹھویں کتاب، ص3
(121) اردو کی آٹھویں کتاب، ص18
(122) اسلامیات نہم و دہم، ص88
(123) مطالعہ پاکستان نہم و دہم، ص119
(124) اسلامیات لازمی بی اے
(125) معیار اسلامیات لازمی بی اے
(126) اردو، دائرہ معارف اسلامیہ، 12، 19
(127) مقالہ سیرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم، ص12
(128) انگلش کی آٹھویں، ص1، پنجاب تیکسٹ بک بورڈ
(129) انگلش کی دسویں، ص5
(130) سیرت رسول اللہ، آکسفورڈ یونیورسٹی لندن، ص69
(131) دی لائف آف محمد، ص23
(132) محمد دی فائنل میسنجر، ص50
(133) پروس پیکٹس، 2010، ص162)۔ (مزید حصّہ نمبر 2 میں ان شاء اللہ) ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
جواب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے، اتفاق اور اتحاد نہیں ہے، دونوں طرف شدید اختلاف پایا جاتا ہے، جس کو دیانت کے ساتھ پڑھنے کی ضرورت ہے، اصل معاملہ تاریخ کا نہیں ہے، بلکہ جو کچھ کر رہے ہیں، اس سے اختلاف ہے، ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس کا ثبوت کتاب و سنت، قرون ثلاثہ اور ائمہ اربعہ سے بھی نہیں ہے، تو کم سے کم اپنے امام سے ثابت کرکے دیکھائیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
اس تحریر میں سب سے وزنی جو مہینہ ولادت، تاریخ ولادت پر ان کے پاس دلیل ہے وہ یہی ابن أبی شیبہ کی روایت ہے جو منقطع اور ضعیف ہے، محقق و ناقد کو ہمیشہ دیانت علمی سے کام لینا چاہیے ہے لیکن تحقیق و نقد حدیث جیسی عظیم نعمت سے رب العالمین نے ہمیشہ اہل بدعت کو محروم رکھا ہے، فیض صاحب نے حافظ کثیر کے دوسری جگہ اس روایت نقل کرنے اور پھر اس کے ضعف کو بیان کرنے کو کیوں ذکر نہیں کیا ہے۔۔۔؟؟
ملاحظہ فرمائیں
حافظ ابن کثیر کہتے ہیں:
ﻭﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺜﻤﺎﻥ ( الصواب عفان ) ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻴﻨﺎ ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﻭاﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ. ﻗﺎﻻ: ﻭﻟﺪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﺎﻡ اﻟﻔﻴﻞ ﻳﻮﻡ اﻻﺛﻨﻴﻦ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻋﺸﺮ ﻣﻦ ﺭﺑﻴﻊ اﻷﻭﻝ.
ﻭﻓﻴﻪ ﺑﻌﺚ، ﻭﻓﻴﻪ ﻋﺮﺝ ﺑﻪ ﺇﻟﻰ اﻟﺴﻤﺎء، ﻭﻓﻴﻪ ﻫﺎﺟﺮ، ﻭﻓﻴﻪ ﻣﺎﺕ.
ﻓﻴﻪ اﻧﻘﻄﺎﻉ
البداية والنهاية لابن كثير:3/ 135 ﻓﺼﻞ اﻹﺳﺮاء ﺑﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﻦ ﻣﻜﺔ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺖ اﻟﻤﻘﺪﺱ
تو حافظ ابن کثیر نے اس جگہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس کا ضعف بھی واضح کر دیا ہے۔
اب اس میں انقطاع یہ ہے کہ عفان بن مسلم اور سعید بن میناء کے درمیان واسطہ عام طور پر سلیم بن حیان کا ہوتا ہے اور عفان کے شیوخ میں سلیم بن حیان کا نام ہی محدثین نے ذکر کیا ہے اور سعید بن میناء کے تلامذہ میں عفان کا ذکر تھذیب الکمال وغیرہ میں کوئی نہیں ہے۔
اسی طرح سعید بن میناء کے شیوخ میں عبد الله بن عباس کا ذکر بھی نہیں ہے۔
اب عفان و سعید کے درمیان واسطہ ہونے کی چند ایک اسانید ملاحظہ فرمائیں:
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻔﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻢ ﺑﻦ ﺣﻴﺎﻥ ﻗﺎﻝ: ﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻴﻨﺎء ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ……
[مصنف ابن أبي شيبة : 31770]
عفان کی سلیم بن حیان سے روایت مزید مصنف ابن أبی شیبہ میں دیکھ سکتے ہیں
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻔﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻢ ﺑﻦ ﺣﻴﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻴﻨﺎء۔۔۔۔۔
[مسند أحمد بن حنبل : 6862]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻔﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻢ ﺑﻦ ﺣﻴﺎﻥ، ﺃﺧﺒﺮﻧﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻴﻨﺎء، ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ۔۔۔۔۔۔۔
[مسند أحمد بن حنبل]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻔﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻢ ﺑﻦ ﺣﻴﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻴﻨﺎء، ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ۔۔۔۔۔۔
[مسند أحمد بن حنبل: 14888]
اور دیکھیے: 14910 ،15204 ،15283
ﻭﻗﺎﻝ ﻋﻔﺎﻥ: ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻢ ﺑﻦ ﺣﻴﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻴﻨﺎء۔۔۔۔۔
[صحیح البخاری : 5707]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﻔﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻠﻴﻢ ﺑﻦ ﺣﻴﺎﻥ، ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻴﻨﺎء، ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ۔۔۔۔۔۔
[صحیح مسلم : 2287]
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺎﺱ اﻟﺪﻭﺭﻱ، ﻭاﻟﺼﻐﺎﻧﻲ، ﻭﺟﻌﻔﺮ اﻟﺼﺎﺋﻎ، ﻗﺎﻟﻮا: ﺛﻨﺎ ﻋﻔﺎﻥ، ﻗﺜﻨﺎ ﺳﻠﻴﻢ ﺑﻦ ﺣﻴﺎﻥ، ﻗﺜﻨﺎ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻴﻨﺎء، ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[صحیح أبی عوانہ: 5090]
آپ مزید کتب احادیث کا مطالعہ کریں تراجم کو پڑھیں تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ عفان بن مسلم کا سعید بن میناء سے روایت کرنا ثابت نہیں ہے بلکہ ان کے درمیان واسطہ موجود ہے جو انقطاع پر واضح دلیل ہے۔ اور سیدنا عبد الله بن عباس رضی الله عنہ سے جو روایت محفوظ ہے وہ یہ ہے۔
ﺣﺪﺛﻨﺎ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ ﺣﻨﺒﻞ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ، ﺛﻨﺎ ﺣﺠﺎﺝ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ( هو المصيصي)، ﺛﻨﺎ ﻳﻮﻧﺲ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺟﺒﻴﺮ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻗﺎﻝ: ﻭﻟﺪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﺎﻡ اﻟﻔﻴﻞ [المعجم الكبير للطبراني : 12432]
اس میں کہیں ربیع الاول اور تاریخ کا ذکر نہیں ہے۔ ہمارے علم وتحقیق کے مطابق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا مہینہ ولادت، تاریخ ولادت مرفوعا وموقوفا باسند صحیح ثابت نہیں ہے۔
اہم نکتہ:
جن ائمہ محدثین ومؤرخین نے مہینہ ولادت ،تاریخ ولادت ربیع الاول بیان کیا ہے ان میں سے کسی نے بھی جشن عید میلادالنبی صلی الله علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا نہ ہی ان ائمہ نے اس پر اہل بدعت والے بناے گیے دلائل بیان کیے نہ ہی ان ائمہ محدثین مؤرخین سے جشن عید میلادالنبی منانا یہ ثابت کر سکتے ہیں ۔ آج اہل بدعت جو قرآن کی آیات سے استدلال کشید کرتے ہیں اگر یہ اس مسئلہ میں دلالت کرتی ہوتیں اور لائق استدلال ہوتیں تو سب سے پہلے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم اس کو بیان فرماتے اور پھر صحابہ کرام وسلف صالحین اس بنیاد پر عمل پیرا ہوتے۔
یاد رکھیں ایمان بالرسالة،اس کے تقاضے، محبت وعقیدت وہی معتبر ہے جو قرآن وحدیث ہمیں بتاتے ہیں اور جسے صحابہ کرام وسلف صالحین نے اختیار کیا تھا۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
وصال مصطفی یہ اصطلاح مبتدعین کی ہے۔ صحیح العقیدہ لوگ یہ لفظ استعمال نہیں کرتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ
جو منقطع روایت ان صاحب نے سب سے پہلے موقوفا نقل کی ہے اسی میں لفظ مات ( رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے وفات پانے کا ذکر بھی ہے جو ان کے عقیدہ باطلہ کے خلاف ہے۔
نور من نور الله بھی کہتے ہیں اور میلاد بھی ۔۔۔۔۔۔۔؟؟
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے والدین بھی مانتے ہیں اور نور من نور الله کا باطل عقیدہ بھی
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ الله