سوال (2238)

کیا تاریخی روایات کو پرکھنے اور احادیث کو پرکھنے کے اصول ایک ہیں؟

جواب

محدثین کے ہاں حدیث اور تاریخی روایات کو پرکھنے کے لیے بنیاد سند ہے، آج کے جدید محققین جب سند کے آگے بے بس ہو جاتے ہیں، تو حدیث اور تاریخ کو پرکھنے کے لیے الگ الگ میعار کے شگوفے چھوڑنے شروع کر دیتے ہیں۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

تاریخ کے معاملے میں تساہل سلف سے ثابت ہے۔

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ

اصول اور تساہل میں فرق ہے۔

فضیلۃ العالم عبدالرحیم حفظہ اللہ

ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ واقدی اگر اخبار صحیحہ کی مخالفت نہ کرے اور دیگر مؤرخین کی مخالفت نہ کرے تو اس کی اخبار مقبول ہیں۔
التلخیص
یہاں قبول کرنے کا وہ معیار نہیں جو احکام کی روایات میں ہے۔

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ

ہم اس کے تحت محترم فہد حارث حفظہ اللہ کا ایک مضمون ذکر کرتے ہیں۔
تاریخی روایات کو اخذ و قبول اور رد کرنے کے اصول
متقدمین کے نزدیک تاریخ محض نقلِ اخبار ہے۔ اب ان اخبار کی چھان پھٹک کیسے ہوگی تو یہ اصول تاریخ سے طے ہوگا۔ اصول تاریخ ہمیں یہ سہولت فراہم کرتے ہیں کہ ہم یہ جان سکیں کہ ایک راوی کن حالات و ظروف میں ناقابلِ اعتبار ہے اور کن حالات و ظروف میں وہی راوی لائقِ اعتبار ہے۔ یہ استعداد تاریخ کے بطور علمی مجال مسلسل مطالعہ سے پیدا ہوتی ہے جہاں پتہ چلتا ہے کہ راوی کا فکری رجحان اس کی وثاقت سے زیادہ اس کی بیان کردہ روایت کی وثاقت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر واقدی کو لیتے ہیں جو عندالمحدثین کذاب ہیں اور جن کے کذب پر امام ذہبی نے میزان میں اجماع نقل کیا ہے۔ لیکن یہی واقدی جب اپنی کتاب المغازی میں جنگ بدر اور احد کے محل وقوع کو ایک ایک انچ کے حساب سے ایسے بیان کرتے ہیں کہ بدر و احد کے مقامات کی پوری تصویر کشی قاری کے آگے یوں ہوجاتی ہے کہ جب وہ حقیقت میں ان مقامات کی زیارت کو جاتا ہے تو ہاتھ برابر فرق نہیں پاتا۔
کیوں؟ کیونکہ واقدی نے ان تمام مقامات کے پیدل سفر کرکے اپنے ذاتی مشاہدے کے بعد ان باتوں کو روایت کیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ مغازی کے باب میں امام شافعی واقدی پر کڑی جرح کرنے کے باوجود اسکو حجت مانتے ہیں۔
اب جب کوئی شخص علم اصول تاریخ میں درک رکھے بغیر امام شافعی کی اس جرح اور طرز عمل کو دیکھتا ہے تو وہ یا تو امام شافعی کے بارے میں (ڈبل پالیسی کے) سوء ظن کا شکار ہوجاتا ہے یا پھر وہی خلط مبحث قائم کرلیتا ہے جو سید مودودی نے خلافت و ملوکیت میں امام شافعی کے اس طرز عمل کی بابت پیش کرکے واقدی کو علی الاطلاق حجت باور کروانا چاہا ہے۔
جبکہ واقدی، ہشام بن سائب کلبی، سیف بن عمر اور ان جیسے دیگر مجروح رواۃ نہ ہی تو علی الاطلاق قابلِ رد ہیں اور نہ علی الاطلاق لائقِ اعتبار۔ بلکہ ان کے ماحول، پرورش، اساتذہ اور سیاسی و فکر رجحانات کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ان کی کونسی روایت قبول کی جائے گی اور کونسی رد۔
پس ہم واقدی کے فکری رجحان اور ان کی روایات کے ضمن میں طے کرینگے کہ ان کی کونسی روایات قبول کی جائینگی اور کونسی رد۔
مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں یزید بن معاویہ سے متعلق واقدی نے بعض نہایت منکر روایات تک نقل کی ہیں جیسے محرمات سے نکاح حلال کرنے وغیرہ کی جن کی تائید کسی اور مستند مورخ یا روایت سے نہیں ہوتی۔
ایسے میں ہم واقدی سے ایسی کوئی روایت نہیں لیں گے جو بنو امیہ یا یزید مخالفت میں ہو الا یہ کہ ان کی اس روایت کی تائید دوسرے مستند ماخذ بھی کرتے ہوں اور واقدی کی روایت کو محض متابعت میں پیش کیا گیا ہو۔ کیونکہ بہرحال واقدی پر کذب و افتراء کی کڑی جرحیں بھی موجود اور ثابت ہیں۔ پس عام تاریخی بیان کے سلسلے میں تو واقدی قابلِ قبول ہوں گے لیکن بعض مخصوص معاملات یا ادوار و افراد سے متعلق بلا متابعت و شواہد ان کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔
بعینہٖ یہی حال ابو مخنف لوط بن یحییٰ ازدی کا بھی ہے جو عراق و کوفہ کے عمومی حالات و اخبار کے لیے عندالمورخین مستند ہے تاہم یہی ابو مخنف جب بنو امیہ مخالفت میں یا آل علیؓ کی حمایت میں کوئی واقعہ روایت کرے گا تو دیگر ماخذ اور قرائن پر پرکھنے کے بعد ہی اسے قبول کیا جائے گا۔ اگر دیگر ماخذ و قرائن سے اس واقعہ یا روایت کا اثبات نہیں ہوتا تو اسے فی الفور رد کردیا جائے کیونکہ بہرحال ابو مخنف آگ لگانے والا شیعہ تھا۔
پھر یاد رکھیے کہ راوی کے ذہنی رجحان کا یہ اصول بھی محدثین سے لیا گیا ہے جہاں مولفِ نخبۃ الفکر علامہ ابن حجر عسقلانی وغیرہ نے یہ تصریح کردی ہے کہ اگر کوئی صادق اللہجہ بدعتی راوی اپنی بدعت کی تائید میں کوئی روایت لائے گا تو اسے رد کردیا جائے گا جبکہ عام حالات میں وہ راوی قابلِ حجت ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی صادق اللہجہ شیعہ راوی کی روایت آلِ علیؓ کی منفرد فضیلت (جس کا کسی اور روایت میں ذکر نہ پایا جاتا ہو) میں یا صحابہ کی تنقیص میں قابلِ اعتبار نہ ہوگی۔
اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شعبہ تاریخ اسلامی جامعہ کراچی کی سابقہ چئیر پرسن اور کثیر کتابوں کی مصنف ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ مورخ مسعودی کی استنادی حیثیت کی بابت کیےگئے ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں:
“ہم (یعنی تاریخ کے مستقل طلبہ ) تاریخ کو اس طرح نہیں پڑھتے جس طرح وہ قارئین پڑھتے ہیں جن کا مستقل موضوع تاریخ نہیں ہوتا ۔ ہم جب تاریخ کی کوئی کتاب پڑھنا چاہتے ہیں تو کتاب سے پہلے مورخ کے بارے میں پڑھتے ہیں، وہ کون تھا ۔۔۔کس علاقے سے تعلق رکھتا تھا ۔۔۔اس کے والدین کون تھے ۔۔۔کن اساتذہ سے تعلیم حاصل کی ۔۔۔کون اس کے مشہور شاگرد تھے۔۔۔۔۔اس کے عقائد کیا تھے ۔۔۔اس کی تصانیف کن کن موضوعات پر کون کون سی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
پھر ہم اس کی کتاب کو پڑھتے ہوئے ان معلومات کو ذہن میں رکھتے ہیں ۔مثلا مسعودی کی “مروج الذھب” پڑھتے ہوئے چونکہ اس بات کا علم ہے کہ مسلکا ًوہ معتزلی شیعہ ہے، لہذا اس کی کتاب میں خلافت راشدہ اور اموی دور کو ہم پڑھ تو لیں گے لیکن اس کی تاریخی روایات، جو اس دور کے بارے میں ہوں گی ان کو کوٹ کرنے یا اپنی تحقیق میں استعمال نہیں کریں گے۔ یا اس وقت استعمال کریں گے جب روایات کی تنقیح ممکن ہو۔
اس دور کے علاوہ مسعودی کی کتاب وہ معلومات فراہم کرتی ہے جو بڑے بڑے مورخین کے ہاں نہیں ملتیں ۔ فلسفہ تاریخ کا بانی بھی شاید وہی ہے، معتزلی ہونے کی وجہ سے واقعات کی عقلی توجیہات کرتا ہے اور یہ طرز اسلوب اسے اپنے معاصرین سے بلند کر دیتا ہے ۔باقی رہ گیا ایک مخصوص دور تو اس بارے میں اسے معیار حق بنانے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ ثابت شدہ بات ہے کہ وہ شیعہ معتزلی تھا۔ (ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ)
تحریر : محمد فھد حارث