سوال (3580)
کیا نماز چھوڑنے سے انسان کافر ہوجاتا ہے؟
جواب
1: نماز چھوڑنا کفریہ شرکیہ عمل ہے۔ [مسلم : 246]
نماز چھوڑنے والا اس طرح اعتقادی مشرک نہیں۔ جس کے بارے میں اللہ نے فرمایا کہ مشرک پر جنت حرام کردی گئی۔ [المائدہ : 72]
2: اگر کوئی شخص مطلقا نماز پڑھتا ہی نہیں جمعہ وغیرہ تک نہیں پڑھتا۔تو وہ تارک الصلاۃ ہے، دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ لیکن اگر کوئی سستی کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتا کہ کبھی پڑھ لی کبھی چھوڑ دی جمعہ پڑھ لیا، دن میں کچھ نمازیں پڑھ لیں کچھ چھوڑ دیں اور وہ نماز چھوڑنے کو برا سمجھتا ہے تو ایسا شخص کبیرہ گناہ کا مرتکب یے لیکن کافر نہیں۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث احمد بن احتشام حفظہ اللہ
اس سے اتفاق مشکل ہے کہ مطلقا نماز کا تارک دائرہ اسلام سے خارج ہے، راجح یہ ہے کہ جو فرضیت نماز کا انکار نہیں کرتا اور عملاً نماز بھی نہیں پڑھتا تو وہ فاسق و گنہگار ہے، اس پر جہنم کی وعید ہے، مگر اس عمل کے ترک سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ہے۔
کیونکہ وہ کلمہ پڑھتا ہے ارکان پر ایمان رکھتا ہے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے آپ صلی الله علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان رکھتا ہے اسی طرح دیگر ایمانیات پر ایمان رکھتا ہے تو ایسے شخص پر کفر اکبر کا فتویٰ لگانا مشکل امر ہے، ہمیں سخت فتوی لگانے کی بجائے اس کے ترک پر اخروی انجام سے خبردار کرنا چاہیے ہے، اور نماز کی اہمیت و فضیلت سے باخبر کرنا چاہیے ہے احوال جنت و جہنم بتانے چاہیے ہیں تاکہ اس کا دل بیدار ہو جائے اور وہ عبادت و اطاعت پر تیار ہو جائے اور مستقل نمازی بن جائے.
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
یہ رائے محل نظر ہے، صحابہ کسی کے عمل کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے، اوائل عہدوں میں اس مسئلہ کی بابت کوئی اختلاف نہیں تھا، یہاں تک کہ امت میں ارجاء کا فتنہ برپا ہوا، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ کی کتاب الصلاۃ دیکھیے، ان شاءاللہ فائدہ ہوگا.
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
لفظ کفر کا اطلاق کفر اکبر پر کرنا مرجوح ہے اس مسئلہ میں، اس مسئلہ پر محدث الباني رحمه الله تعالى، علامہ ابن عثیمین رحمه الله تعالى نے کافی تفصیل سے لکھا ہے اسی طرح دیگر عرب مشایخ نے بھی لکھا ہے اور میں نے ان علماء کرام ومشایخ کے ساتھ خود بھی مطالعہ کیا ہے. الحمد لله رب العالمين
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ