سوال (1390)

کیا مفسر(قرآن کا ماہر) ، محدث(حدیث کا ماہر) ، فقیہ(احکام اسلامی کا ماہر) اور مورخ(اسلامی تاریخ کا ماہر وکاتب) کی طرح صوفی(روح اورنفس کے تزکیہ کاعالم ومربی) بھی ایک اسلامی علم و فن کی اصطلاح ہے، تصوف کی تعریف اور اس کی اصطلاحات کون سی ہیں؟ صوفی اور زاہد میں کیا مقاربت ومخالفت ہے؟ اصلی صوفی اور نقلی صوفی میں کیا فرق ہے؟

جواب

تصوف بھی تزکیہ کا ادارہ ہی ہے اس میں بھی جو کمیاں اور لغزشیں یا خرافات ہیں وہ ایسے ہی ہیں جیسے علماء و فقہاء کے گروہ میں ہیں تاہم ان کی خرافات اس اعتبار سے بڑھ گئی ہیں کہ ان کا کام ایک سادہ سطح پر کیا جانے والا کام ہے جس کی مخاطب زیادہ تر عوام ہوتی ہے اور جہاں جو کوئی غلط وغیرہ بول دے اس کی اصلاح مشکل ہوتی ہے ان میں سے جو علم اور سلف کے قریب رہے ہیں وہی حق پر تھے ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے تصوف پر ایک جلد لکھی ہے جس کا مقدمہ بہت اہم ہے اس میں سید الطائفہ جب وہ کہتے ہیں تو اس سے جنید بغدادی مراد ہوتے ہیں امام حسن بصری، سہل تستری اور بشر المریسی وغیرہ یہ سب لوگ سنت کے دائرے سے باہر جانے والے نہیں تھے اور خود کو اہل علم سے جوڑے رکھنے والے لوگ تھے خرافات کا کام بعد میں شروع ہوا اور اب اس ادارے کا برا حال ہو چکا ہے بہت کم لوگ ہیں جو یہاں اللہ والے ہیں۔

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ

محدثین نے تزکیہ پر کتب مرتب کی ہیں، اسی طرح جوامع کتب میں بھی کتاب الزھد یا کتاب الرقاق وغیرہ موجود ہوتی ہے ، محدثین کرام نے اس پہلو کو اجاگر کیا لیکن اپنے منہج سے انحراف نہیں کیا اور تزکیہ میں بھی سند کی اہمیت کو قائم رکھا۔(اور انہوں نے اسے تصوف کا نام نہیں دیا) اوائل صوفیہ کا مقصود بھی تزکیہ تھا اور خیر بھی موجود تھی البتہ منہج محدثین کے موافق نہیں تھا۔ اور وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی خرافات اور قبائح در آئے ۔ اوائل صوفیہ کے رد کے لئے دیکھئے ابن الجوزی رحمہ اللہ کی کتاب تلبیس ابلیس۔
(ابن الجوزی نے ابو نعیم وغیرہ نے جو بعض صحابہ یا محدثین کرام یا ان کے منہج پر گامزن لوگوں کو حلیہ میں صوفیاء کی لسٹ میں شمار کیا اس کا بھی بہت شدت سے رد کیا ہے).
اصولی طور پر اوائل کا وہ حکم نہیں جو بعد والوں کا ہے۔ تفریق ضرور ہے اور خیر کا اعتراف بھی۔ لیکن جیسے دوسرے گروہ (خوارج،مرجئة وغیرہ ہیں کہ اھل السنہ کے منہج پر نہیں) اسی طرح یہ اھل السنہ یا محدثین کے منہج پر نہیں ہیں۔الگ سے ایک فکر ہے۔
واللہ اعلم

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

سائل : اہل حدیث اور اہل ظاہر میں کیا فرق ہے ؟
ان کے اصول اور فروعات میں کیا مماثلت یا مفارقت ہے ، ان طبقات کے چند متقدمین اور عصر حاضر کے نامور علماء وفقہاء کے نام اور کام درج فرمائیں ، وہابی کسے کہتے ہیں ، کیا وہابی ایک نیا فرقہ ہے ، وہابی اور صوفی میں کیا فرق ہے ، ان کے چند عقائد اوراصول ومبادی بیان کریں ، امام حسن بصری صوفیوں میں کیسے شمار ہوسکتے ہیں؟
جواب :
تصوف کا معنی دل کی صفائی کیا گیا ہے اور بھی کئی معنی ہوں گے تاہم اس کا مطلب اگر تزکیہ کیا جائے تو تزکیہ کا ادارہ وجود میں آنا شرعاً بعید نہیں ہے اس کے بنیادی طور پر دو مقصد ہیں کثرت ذکر اور نیک صحبت
آج کل کے صوفی شرک و بدعات کے داعی بن چکے ہیں اس لئے عملا اگرچہ حقیقی صوفی تلاش کرنے مشکل ہیں تاہم نظری طور پر اور تاریخی طور پر آپ کو اس صف میں متبع سنت اور بڑے بڑے موحد ملیں گے
سائل :
تزکیہ کا ادارہ وجود میں آنا شرعا بعید نہیں ہے ، کیا ایسا کوئی ادارہ ان میں سے کسی نے بنایا تھا جن کا ذکر “فان امنوا بمثل ما امنتم بہ فقد اھتدوا” میں کیا گیا ہے ، کیا ہمارے پیارے نبی سے بڑھ کر بھی کوئی مکثر ذکر بن سکتا ہے؟ کیا پیارے صحابہ سے بڑھ کر بھی کسی کی اچھی صحبت کا امکان ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا حقیقی صوفی تلاش کرنے مشکل ہیں تو کیا کثرت ذکر اور اچھی صحبت اور قرآن میں مذکور تزکیہ کے حاملین کی تلاش مشکل ہے؟
جواب :

قال شيخ الإسلام ابن تيمية في مجموع الفتاوى [14/ 176]
“ولأجل ما وقع في كثير منهم من الاجتهاد والتنزع فيه تنازع الناس في طريقهم؛ فطائفة ذمت ” الصوفية والتصوف “. وقالوا: إنهم مبتدعون، خارجون عن السنة، ونقل عن طائفة من الأئمة في ذلك من الكلام ما هو معروف، وتبعهم على ذلك طوائف من أهل الفقه والكلام.
وطائفة غلت فيهم، وادعوا أنهم أفضل الخلق، وأكملهم بعد الأنبياء وكلا طرفي هذه الأمور ذميم.
و ” الصواب ” أنهم مجتهدون في طاعة اللّه، كما اجتهد غيرهم من أهل طاعة اللّه، ففيهم السابق المقرب بحسب اجتهاده، وفيهم المقتصد الذي هو من أهل اليمين، وفي كل من الصنفين من قد يجتهد فيخطئ، وفيهم من يذنب فيتوب أو لا يتوب.
ومن المنتسبين إليهم من هو ظالم لنفسه، عاص لربه.
وقد انتسب إليهم طوائف من أهل البدع والزندقة؛ ولكن عند المحققين من أهل التصوف ليسوا منهم: كالحلاج مثلا؛ فإن أكثر مشائخ الطريق أنكروه، وأخرجوه عن الطريق. مثل: الجنيد بن محمد سيد الطائفة وغيره. كما ذكر ذلك الشيخ أبو عبد الرحمن السلمي؛ في ” طبقات الصوفية ” وذكره الحافظ أبو بكر الخطيب في تاريخ بغداد ” انتهى
هكذا نرى شيخ الإسلام ابن تيمية يفصل القول في الصوفية ولا يحكم عليهم جميعا بحكم واحد

آپ جلدی نہ کریں اس پر بحث ممکن ہے اور آپ میری رائے کو غلط کہہ سکتے ہیں لیکن مسئلے کو صرف اپنی نظر سے نہ دیکھیں ان ائمہ کا کلام بھی پڑھیں جو آپ سے زیادہ تاریخ پر نظر رکھنے والے اور عدل کے ساتھ بولنے والے تھے۔

وأنت تجد كثيراً من المتفقهة، إذا رأى المتصوفة والمتعبدة لا يراهم شيئاً ولا يعدهم إلا جهالاً ضلالاً، ولا يعتقد في طريقهم من العلم والهدى شيئاً، وترى كثيراً من المتصوفة، والمتفقرة لا يرى الشريعة ولا العلم شيئاً، بل يرى المتمسك بها منقطعاً عن الله وأنه ليس عند أهلها مما ينفع عند الله شيئاً. وإنما الصواب: أن ما جاء به الكتاب والسنة، من هذا وهذا: حق، وما خالف الكتاب والسنة من هذا وهذا: باطل” اقتضاء الصراط المستقيم – (3/ 19)

فضیلۃ العالم محمد زبیر غازی حفظہ اللہ