سوال (1863)

تثنیہ کی اضافت اگر تثنیہ کی طرف ہو تو مضاف جمع آئے گا جیسے “صغت قلوبکما اصل میں قلباکما” تھا ایضا “فاقطعوا ایدیھما” اصل میں “یداھما” تھا ، لیکن حدیث میں آیا ہے “لاتترایٰ ناراھما” اس میں “نارا” بھی تثنیہ “ھما” بھی تثنیہ ، تثنیہ کی اضافت تثنیہ کی طرف ہو رہی ہے ، لیکن مضاف جمع نہیں آیا ہے ؟

جواب

اس کی مختلف توجیہات کی جا سکتی ہیں۔
(1) : جو دو مثالیں آپ نے ذکر کی ہیں، اس اعتبار سے اس کی توجیہ یہ بنتی ہے کہ جب مضاف مضاف الیہ دونوں ایک ہی چیز کا جزء ہوں تو پھر مضاف کو تثنیہ کی بجائے جمع لایا جاتا ہے۔ بعض نے اس کو ایسے بھی لکھا ہے کہ جب مضاف اعضائے انسانی میں سے ہو تو پھر اس کو جمع لایا جاتا ہے۔ قلوبکما اور أیدیہما اس کی مثال ہیں۔
لیکن اگر مضاف، مضاف الیہ کا حصہ اور جزء نہ ہو تو پھر اسے جمع نہیں لایا جاتا، ناراہما اس کی مثال ہے۔ کیونکہ آگ دل یا ہاتھ وغیرہ کی طرح کسی انسان کا جزء نہیں ہوتی۔
(2) : اس کی اس سے بھی بہتر توجیہ یہ ہے کہ یہ قاعدہ جوازی ہے نہ کہ وجوبی.. لہذا بعض جگہوں پر تثنیہ کو جمع بنا دیا جاتا ہے جبکہ بعض جگہوں پر اسے تثنیہ ہی رہنے دیا جاتا ہے۔
(3) : بعض علمائے لغت و اعراب نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس قسم کی تراکیب میں تینوں وجوہ (جمع، افراد، تثنیہ) جائز ہیں، البتہ بالترتیب سب سے افضل جمع ہے، پھر واحد، اور پھر تثنیہ۔
افراد یعنی واحد کی مثال ابن مالک وغیرہ نے یہ حدیث نبوی بیان کی ہے: “ومسح أذنيه ظاهرهما وباطنهما”. محل شاہد ’ظاہر’ اور ’باطن’ کے دو لفظ ہیں کہ انہیں یہاں واحد استعمال کیا گيا ہے.. حالانکہ ’قلوبکما’ کے حساب سے انہیں “ظهورهما و بطونهما” ہونا چاہیے تھا۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ