تعصب و جمود کے زہر سے خود کو پاک رکھیں!
مخالف مکتب فکر اور مختلف سوچ رکھنے والے کو زیرو اور خود کو ہر فن کا ہیرو سمجھنا، اس رویے کو کسی ایک معروف مکتب فکر کی طرف منسوب کرنے کی بجائے ایک مستقل مکتب فکر ماننا چاہیے، اور یہ مسلک ہے تعصب و جمود اور تنگ نظر لوگوں کا، ایسے لوگ کم ہوں یا زیادہ ہر مسلک و مکتب فکر میں پائے جاتے ہیں۔
مفتی شمائل دیوبند مکتب فکر سے ہیں، لیکن پکی بات ہے کہ کل سے اس مکتب فکر کے جاہل بھی مفتی شمائل میں خامیاں کوتاہیاں گنوا رہے ہوں گے، بالکل اسی طرح جس طرح ذاکر نائیک جیسے لوگوں کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بھی اپنوں کی طرف سے ہی بنایا جاتا ہے۔
اس تعصب و جہالت کے نمائندگان جب اپنوں کو معاف نہیں کرتے تو دوسروں کو کیوں معاف کریں گے، جب انہیں اپنے اچھے نہیں لگتے تو دوسروں کا اعتراف کیوں کر سکتے ہیں؟
اور یہ ساری منفی سوچ اور نفرت کا کاروبار انتہائی خوشنما الفاظ و تعبیرات کے سہارے کیا جاتا ہے، کسی کے نزدیک یہ ’منہج’ ہے، کوئی اسے ’اکابرین کی سوچ وفکر’ سے تعبیر کرتا ہے، کسی کے نزدیک سلف صالحین اس قسم کی حرکتوں میں مبتلا تھے اور پھر اس کے لیے نصوص اور آثار میں باقاعدہ معنوی تحریف کرکے اسے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اسلام جو سرزمین حجاز سے پوری دنیا میں پھیلا، اس میں ایسی کوئی تنگ نظری نہیں، منہج جس پر خیر القروں گامزن رہے، کسی بند گلی کا نام نہیں اور نہ پوری دنیا پر حکومت کرنے والے اکابرین و سلف صالحین اتنے کم ظرف تھے، جتنا آج باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
کتاب وسنت سے تمسک اختیار کریں، اپنے اکابرین و اہل علم و مشایخ کی ترجیحات سے رہنمائی لیں، بدعات و خرافات سے اظہار براءت کریں لیکن تمام مسالک و مکاتب فکر کے ساتھ تعامل بطور مسلمان کریں، ایک مسلمان کے جو دوسرے پر حقوق و فرائض ہیں ان کے مطابق چلیں!
سیر و سوانح کی کوئی ایک کتاب، اسلامی ممالک میں کوئی ایک ملک دینی مدارس میں کوئی ایک مدرسہ ان تنگ بنیادوں پر قائم نہیں ہوا، جو کچھ آج کل تفرقہ بازی کے نام پر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
#خیال_خاطر




