سوال (3894)
سوال یہ ہے ٹاؤن کی زکوۃ ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے، انسٹالمنٹ میں جگہ لے لی جاتی ہے اور اس کی ادائیگی وقفے وقفے سے کرنی ہوتی ہے، چار سال کا ٹائم ہے اور 50 ، 50 لاکھ ہر سال دینا ہے، پلاٹ بک رہے ہوتے ہیں، پرافٹ بھی آ رہی ہوتی ہے، ٹوٹل ٹاؤن جو لیا ہے، اس پر زکوۃ ہوگی یا جو بک کیا ہے، اس پر زکوۃ ہوگی یا اس کا کوئی اور حکم ہوگا۔
جواب
اس میں تین پارٹیاں ہیں:
زمین کا پہلا مالک
1: اس سے خریدنے والا سوسائٹی کا مالک
2: سوسائٹی والوں سے خریدنے والا پلاٹ کا مالک
3: سوسائٹی والے بھی زمین قسطوں پر یا ادھار خریدتے ہیں۔
اسی طرح اگے سوسائٹی والوں سے بھی لوگ ادھار یا قسطوں پر خریدتے ہیں۔
اس میں اصول یہ ہے کہ سوسائٹی والے نے جتنی قسطیں ادا کر دی ہیں، اتنی زمین کا وہ مالک متصور ہو گا، بقیہ زمین اگرچہ اس کے تصرف میں ہے، لیکن زکاۃ میں اس کو شمار نہیں کیا جائے گا، بلکہ اس کا معاملہ اس قرض کی طرح کا ہو گا، جس سے کوئی فائدہ تو اٹھا رہا ہوتا ہے، لیکن اس کی زکاۃ اس کے ذمے نہیں ہوتی۔ اسی طرح پلاٹ مالکان سے اس نے جتنی قسطیں وصول کر لی ہیں، اتنی زمین اس کی ملکیت سے نکل جائے گی، بقیہ اس کی ملکیت ہی متصور ہو گی۔
اب زکاۃ دینے کے لیے اس نے دو چیزوں کا حساب لگانا ہے: جتنی زمین کی وہ قسطیں ادا کر چکا ہے اور وہ آگے فروخت نہیں ہوئی، اس کی زکاۃ ادا کرے کیونکہ یہ تجارتی زمین ہے، جس پر زکاۃ ادا کرنا لازمی ہے۔
دوسری طرف پلاٹس بیچ کر وہ جتنی قسطیں وصول کر چکا ہے، اس مالیت پر بھی اڑھائی فیصد زکاۃ ادا کرے۔ واللہ اعلم۔
رہا یہ مسئلہ کہ زکاۃ کب سے کب تک شمار کی جائے گی؟ تو اس کا طریقہ بھی وہی ہے جو دکان وغیرہ کی زکاۃ کے حوالے سے اہل علم بیان کرتے ہیں، کہ ہر سال کے شروع میں کل مالیت کا اندازہ لگا کر زکاۃ ادا کر دی جائے، درمیان میں ہونے والی خرید و فروخت سے اس پر اثر نہیں پڑے گا۔
ہذا ما عندی
مزید مشایخ سے تصدیق کا انتظار کرلیں.
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
یہ آپ کا مال تجارت ہے، جو پلاٹس بیچیں ہیں، وہ سب رقم سوائے جو خرچ ہوگیا ہے، وہ نکال کر سب لگادیں، جو پلاٹس موجود ہیں، ان کی موجودہ قیمت کے مطابق رقم شامل کرلیں، جو لوگوں سے لینا ہے وہ شامل کرلیں، یہ تینوں شامل کرکے ٹوٹل کرکے اس سے زکاہ نکال دیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ