سوال (3566)
ایک عجیب معاملہ درپیش ہے، جس کے متعلق رہنمائی درکار ہے کہ جب کوئی فوت ہو جاتا ہے جس دن اس کا جنازہ ہوتا ہے، اس دن تو سارے عزیز و اقارب اور جاننے والے سبھی جمع ہوئے ہوتے ہیں جنازے میں شرکت کے لیے، لیکن کیا اس چیز کی دلیل ہمیں قرآن و سنت سے ملتی ہے کہ مخصوص کر لینا تین دن میت کے گھر آیا جائے باقائدہ بیٹھا جائے اور بیٹھ کر بھی لوگ ادھر ادھر کی باتیں ہی کرتے ہیں، کوئی خاص بات ہوتی نہیں ہے۔ پھر میت کے ورثاء پر کھانے کا تکلف ڈال دیا جاتا ہے، وہ مخصوص تین دن کھانا بھی تیار کراتے ہیں، پھر تیسرے دن دعا کرا کر یہ سارا پروگرام کلوز کِیا جاتا ہے، اس کے بارے رہنمائی فرمایئے گا کہ کیا یہ سارا پروگرام کرنا اور تین دن باقائدہ جمع ہو کر بیٹھنا کیا یہ سب درست ہے؟
جواب
کسی شخص کے فوت ہونے بعد بیوی کے علاؤہ باقی رشتے دار تین دن سے زیادہ سوگ نہیں مانا سکتے ہیں، اس کے طریقے کار جو ہمارے ہاں رائج ہے، اس کا ثبوت حدیث میں کہیں بھی نہیں ملتا ہے، اب تو باقاعدہ قالین اور کرسیاں منگوائی جاتی ہیں، اس کے بعد کبھی کوئی کھانا بھیجتا ہے تو کبھی کوئی کھانا بھیجتا ہے، اب تو اس سے بھی آگے سلسلے شروع ہو چکے ہیں، یہ تمام کے تمام سلسلے شریعت کے بالکل منافی ہیں، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ آپ تین دن تک بیٹھ سکتے ہیں، بیٹھنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ آپ مخصوص جگہ پر بیٹھیں، اس سے مراد یہ ہے کہ آپ تین دن تک اس قسم کا ماحول رکھیں کہ لوگ آپ سے مل کر تعزیت کر سکیں، جو رواج ہم نے شروع کیے ہوئے ہیں، وہ بالکل شریعت کے مزاج کے خلاف ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ
سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہیے کہ وفات یا اس کے بعد جو یہ معاملات ہیں، اس کے تعلق معاملات سے ہے، اس کا تعلق عبادت سے نہیں ہے، یہ ہماری معاشرت سے ہے ، عرف کا تقاضا بھی یہی ہے، جب صدمہ تازہ ہوتا ہے، تو عزیز و اقارب آتے ہیں، تسلی دیتے ہیں، بس یہ ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم یہ مسنون کوئی عمل کر رہے ہیں، وہاں بدعات کا ارتکاب نہ ہو، اس کے علاؤہ شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو، جس دن جنازہ ہے، اس دن عزیز و اقارب کا آنا اس میں کوئی اشو نہیں ہے، البتہ دن خاص کر لینا صحیح نہیں ہے، ایک دن یا تین دن یہ صحیح نہیں ہے، یہ بات الگ ہے کہ لوگ وہاں آکر باتیں کر رہے ہوتے ہیں ، باقی لوگوں کی جو آمد رفت رہتی ہے، اس وقت جب صدمہ تازہ ہوتا ہے، تسلی دے رہے ہوتے ہیں، باقی ہمارے ہاں جو صدمے جو تازہ کر رہے ہوتے ہیں، یہ صحیح نہیں ہے، دن اگر خاص نہ ہوں، بدعات کا ارتکاب نہ ہو، شریعت کی خلاف ورزی نہ ہو، تو شروع کے دنوں میں آنے میں کوئی حرج نہیں ہے، کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ
ہمارے عرف میں تعزیت کی کئی ایک قبیح صورتیں پائی جاتی ہیں جیسے کہ: اقارب کے اجتماع کے لئے صرف ایک ہی جگہ کا تعین کرنا، فنکش ہال اور عالیشان مقامات بطور کرایہ پے لینا اور خیمے لگانا کرسیاں بچھانا اور تعزیت کے لئے آنے والوں کا استقبال کرنا۔ یہ سب کے سب بدعتی امور میں سے ہونے کی وجہ سے حرام وناجائز ہیں۔ ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔
رہی بات کہ شروع کے تین دن ہی مخصوص کر لینا تو اس حوالے سے عرض ہے کہ شریعت میں تعزیت کے لئے وقت کی کوئی تعیین نہیں ہے، بلکہ تعزیت مصیبت کے وقت سے مربوط ہے، یعنی جب تک مصیبت ہے اس وقت تک تعزیت کی جاسکتی ہے اور جب تک میت کے آثار باقی ہے اس وقت تک تعزیت کی جاسکتی ہے۔ چونکہ لواحقین کا غم شروع کے اوقات میں تازہ رہتا ہے لہذا ان دنوں میں تعزیت کر لینے میں بہتری ہے، لیکن اس عمل کو بلا وجہ طول دینا ناجائز ہے۔
اب اگر کوئی ان تمام کو جائز قرار دینے کے لیے “عرف” کی دلیل دے تو یہ کہتے ہوئے اس کی دلیل کا رد کریں گے کہ یہ دلیل محل نظر ہے اس لیے کہ عرف کی اصول فقہ میں دو اقسام ہیں: العرف الصحيح، والعرف الفاسد۔ ہر عرف جس میں شرعی امور کی مخالفت ہو وہ فاسد اور غیر مقبول ہے۔ اس لیے فقہاء کرام نے ایک قاعدہ ذکر کیا ہے کہ: النص أولى من العرف۔
والله تعالى أعلى وأعلم والرد إليه أفضل وأسلم.
فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ
جواب و توضیح ہمارے دو محترم و مکرم شیخین کریمین دے چکے ہیں جزاهما الله خيرا، ہمیں تعزیت کے نام پر تین دن تک باقاعدہ اہتمام سے بیٹھنا خیر القرون وبعد کے ادوار میں نہیں ملتا ہے، سوگ کا تعلق خاص خواتین کے ساتھ ہے البتہ اپنے اقربا کی وفات کا رنج وغم تو سالہا سال تک باقی رہتا ہے، راجح یہی ہے کہ جو جس وقت تعزیت کے لیے آئے، تعزیت کر لے مستقل کچھ دنوں تک۔ مخصوص جگہ پر بیٹھنا محض تکلف و رسم ہے، میت کے گھر کھانا صرف پہلے دن بھیجنے کا جواز ہے اس کے بعد وہ خود کھانا بنا کر کھائیں، یاد رکھیں کسی کے فوت ہونے پر کھانا، پینا چھوڑ دینا خلاف شریعت عمل ہے جس کی مذمت واصلاح ضروری ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ