سوال (3402)

پاسبان مسلک و منہج اہل حدیث سے گزارش ہے کہ اس تعزیتی کانفرنس کے متعلق بھی لب کشائی فرما دیں، قناتیں لگا کر یا پھوڑی پہ بیٹھ کر کئی کئی دن میت کے تذکرے کرنے کو جدید لغت میں تعزیتی کانفرنس کہ سکتے ہیں۔

جواب

پیارے بھائی بعض دفعہ کچھ مجبوریوں کی وجہ سے ہمارا عمل اور ہمارا منہج مختلف ہو جاتا ہے. اس سے منہج پہ کوئی فرق نہیں پڑتا پس اہل حدیث کا عمل اور انکا منہج دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ ان دونوں میں فرق ہے مثلا کچھ اہل حدیث علما کا اخلاق اچھا نہیں ہوتا (شاید کافی کا) اور کچھ جماعت وغیرہ سے پیچھے رہتے ہیں لیکن ان کا منہج وہ نہیں ہوتا جیسے ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتا ہے کہ اسلام کو دیکھنا ہے تو مسلمان کو نہ دیکھو بلکہ قرآن اور نبی ﷺ کے فرمان کو دیکھو پس اہل حدیث کو دیکھنا ہے تو کسی جماعت یا گروہ کو نہ دیکھیں کیونکہ بشری تقاضوں کی وجہ سے مجھ سمیت ہر کسی سے کوتاہی ہو سکتی ہے مگر منہج اہل حدیث نہیں بدلتا۔
اور بعض دفعہ کوتاہی نہیں بلکہ سمجھ کی غلط فہمی بھی ہوتی ہے کہ جیسے عمر رضی اللہ عنہ کو محمد ﷺ سے محبت ہی اتنی تھی کہ وہ منہج اہل حدیث سے ہٹ کر کہنے لگے کہ کون کہتا ہے کہ محمد ﷺ فوت ہو گئے میں اسکا سر قلم کر دوں گا پس آپ کسی عمل اہل حدیث کو منہج اہل حدیث سے مکس نہ کریں۔
آپکو سعودیہ کی مثال دیتا ہوں وہاں ہر سال جشن آزادی منایا جاتا ہے مگر انکے کبار علما کا اور اللجنہ الدائمہ کا واضح فتوی ہے کہ یہ بدعت ہے تو یاد رکھیں منہج اہل حدیث کا پتا لوگوں سے نہیں چلتا بلکہ قرآن و حدیث سے چلتا ہے ۔
تمام بھائیوں سے معذرت اگر کسی کو کوئی بات بری لگی ہو مگر واللہ میرا ارادہ کسی کو درست یا غلط کہنے کا نہیں بلکہ صرف منہج اور عمل کا فرق سمجھانے کا تھا۔

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

سائل: آپ نے فتوی تو صادر کر دیا ہے لیکن اسکا بھی جواب دے دیں ؟ کسی فوت شدہ بزرگ کے متعلق اس کے حالات زندگی پر مشتمل جو کتاب لکھی جاتی ہے اور اس کتاب میں اس بزرگ کے متعلق مختلف لوگوں کے تاثرات، تبصرے اور خیالات بھی قلمبند کیے جاتے ہیں ، اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: طنز و تعریض کی بجائے نفس مسئلہ پر مذاکرہ ہونا چاہیے.
جیسا کہ محترم جناب ارشد صاحب نے بہترین انداز اور لب و لہجے میں اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے۔
شخصیات کے مآثر و محاسن کو زندہ کرنے کے لیے تعزیتی ریفرنسز وغیرہ کا انعقاد اسلامی تہذیب و ثقافت میں نہیں ملتا، اگرچہ یہ ہمارے ہاں اب عام ہو رہا ہے، پروفیسر عبد الرحمن مکی رحمہ اللہ سے پہلے بھی کئی ایک شخصیات کی وفات کے حوالے سے ایسی تقاریب رکھی گئی ہیں، ابھی کچھ دن پہلے شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی رحمہ اللہ کے حوالے سے بھی ایسی کسی مجلس کا اعلان دیکھا گیا تھا…!!
اس موضوع پر اسی گروپ میں پہلے بھی بات ہو چکی ہے:

کسی عالم دین کی وفات کے بعد ان کی مدح کے لیے پروگرام کا انعقاد کرنا ؟

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ

بہت بہت معزرت پیارے بھائی اگر میری کسی بات سے آپ کو تکلیف ہوئی ہے ، لیکن یہ آپکی غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہو گا پھر بھی میں اس پہ تہ دل سے معزرت کرتا ہوں اور آپکی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اپنے کمنٹس کی وضاحت کرتا ہوں۔
دیکھیں جمہوریت کے بارے ہمارے ہاں دو گروہ پائے جاتے تھے ایک اسکو حرام اور کفر سمجھنے والے تھے دوسرے اسکی اجازت دینے والے تھے تو جب مجھ سے جمہوریت کو کفر کہنے والے کہتے تھے کہ اہل حدیث کے منہج کو کیا ہو گیا ہے انکا منہج ہی قرآن و حدیث کے خلاف ہے تو میں ان کو کہتا تھا کہ آپ اہل حدیث کے منہج کی بات نہ کریں کسی غلط فہمی کی وجہ سے اہل حدیث کا عمل غلط ہو سکتا ہے مگر منہج کو آپ غلط نہیں کہ سکتے اس وقت میری مراد یہ نہیں ہوتی تھی کہ ووٹ دینے والوں کو ہی درست سمجھتا ہوں بلکہ چونکہ مخاطب مخلص دوست تھے۔ تو انکو ریلیکس کرنے کے لیے کہتا تھا کہ انکو بھی غلط فہمی ہو سکتی ہے ۔پس بدگمانی نہ کریں اور کسی کے عمل کو غلط کہ دیں منہج کو نہ کہیں۔
پس یہاں بھی صرف یہی بات کی تھی کہ پہلے جمہوریت کو حرام کہنے والے جیسے اب خود دوسروں سے بڑھ چڑھ کر ایسا کر رہے ہیں،اور مان رہے ہیں کہ یہ انکی غلط فہمی تھی تو اب بھی کوئی جشن آزادی مناتا ہے تو وہ غلط فہمی کا شکار ہو سکتا ہے اس پہ بدگمانی نہ کریں۔

فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ

کافی دنوں سے جب فضیلۃ الشیخ عبد الرحمٰن مکی رحمہ اللہ کی وفات ہوئی، اللہ تعالیٰ ان درجات بلند فرمائے اور ان کی اور ہماری کمی و کوتاہیوں کو معاف فرمائے، یہ سوال بار بار ہو رہا ہے، اس کو رواج دینا صحیح نہیں، لیکن ایک پروگرام تنظیم اور نظم و ضبط کے تحت رکھ لیا گیا ہے، ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے حوالے سے تو زیادہ سختی یا غیر ضروری فتوے مناسب نہیں ہیں، ممکن ہے کہ میری اس بات سے اتفاق نہ کیا جائے، لیکن یہ غیر ضروری سختیاں ہیں، بس افہام و تفہیم کے ساتھ مشائخ سے ملا جائے اس کو حل کیا جائے، باقی یہ چھوٹے اور بڑے پیمانے پر ہو رہا ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ