سوال (5341)
گھر میں ان کے پاس کچھ بچے ٹیوشن پڑھتے ہیں، جن میں سے دو بچے جو ہیں، ان کے والد شراب پیتے ہیں اور گھر کا خرچ نہیں اٹھاتے تو ان کی والدہ کو جو اپنے والد کی طرف سے جائیداد ملی ہوئی ہے وہ بینک میں جمع ہے تو اس میں سے انہیں جو انٹرسٹ آتا ہے، وہ اس سے اپنے بچوں کو پال رہی ہیں اور ساتھ وہ بچوں کی فیس بھی اسی انٹرسٹ کی رقم میں سے ادا کر رہی ہیں، ان خاتون کا کہنا ہے کہ میرے علم میں ابھی یہ چیز آئی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ فیس میرے لیے حلال ہے؟
جواب
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہود کے ہاں مزدوری کرکے اجرت لینا ثابت ہے اور یہودی سودی لین دین میں مشہور ہیں۔
تو اگر کوئی ٹیچر کو فیس اپنی سودی کمائی سے دیتا ہے تو ٹیچر اپنی تعلیم کی اجرت لے سکتی ہے۔ سودی معاملے کا گناہ سود لینے والے پر ہے۔واللہ اعلم
فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ
بالكل درست فرمايا.
ٹیچر اپنی اجرت اور حق خدمت لے رہی ہے، جو کہ بالکل جائز ہے۔
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ
فیس لے سکتے ہیں۔
حرام کمانے کا وبال کمانے والے پر ہوگا فقط.
جیسا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے شخص کی دعوت قبول کرنے کے متعلق فرمایا کہ (تم دعوت قبول کرو )حرام کا وبال کمانے والے پر ہے۔[سنن کبری للبیھقی: 10829,سندہ حسن]
لہذا اگر کوئی حرام کی کمائی سے چیز دے تو لے سکتے ہیں حرام کا تعلق کمانے والے کے ساتھ ہوتا ہے دوسروں کے لیے عام تحفہ ہے۔
جس طرح اگر کوئی غریب شخص زکوٰۃ کی رقم پر گزارا کرتا ہو، لیکن اگر وہ اپنی اس رقم سے مسجد میں خرچ کرنا چاہے تو کر سکتا ہے کیونکہ زکوٰۃ کا تعلق اس لینے والے شخص کے ساتھ ہے لینے کے بعد جو وہ آگے خرچ کرے گا تو وہ عام مال ہی شمار ہوگا۔
اسی طرح سے اگر کوئی شخص حرام کماتا ہے اور اسی کمائی سے کوئی چیز خریدتا ہے تو دکاندار کے لیے اپنی چیز کے عوض لیے گئے پیسے تو حرام نہیں۔ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ