تحریر میں بیان کردہ پوائنٹس:

1. ٹیکنالوجی نے علم و تحقیق میں نئی راہیں متعارف کروائی ہیں۔
2.ۤ کسی بھی زمانے کی کوئی ایجاد صنعت، تجارت، اور زندگی کو ایک نیا رخ دیتی ہے۔
3. یہ ایجادات اور علمی انقلابات کا زمانہ ہے۔
4. تعلیمی اداروں کو طلباء کو مستقبل کے لئے تیار کرنا چاہیے۔
5. ترقی اور ٹیکنالوجی کے تعلقات مزید مضبوط ہوتے جارہے ہیں۔

یہ خلاصہ تھا، اب آئیے مکمل تحریر ملاحظہ کریں:

آج سے کچھ دہائیاں پہلے یہ تصور نہیں تھا کہ چند کلو میٹر کے فاصلے پر بیٹھے دو لوگ آپس میں بات کر سکیں گے، لیکن اب ہزاروں کلو میٹر کے فاصلے پر بیٹھے لوگ ایک ٹيم کی طرح کام کر رہے ہوتے ہیں، گویا وہ سب ایک ہی جگہ پر بیٹھے ہوں۔
چند دہائیاں پہلے تک کتابیں ہاتھوں سے لکھ کر نقل کی جاتی تھیں، اب لائبریریوں کی لائبریریاں چند منٹوں اور گھنٹوں میں ایک ڈیوائس سے دوسری ڈیوائس میں منتقل ہوجاتی ہیں۔
بلکہ کسی بھی جگہ جہاں انٹرنیٹ موجود ہو، آپ محض ایک چھوٹے سے آلے سے ہزاروں کتابوں تک رسائی حاصل کرلیتے ہیں…!!
دنیا میں سب سے پہلے جب کسی نے پرواز کی ہوگی تو لوگ کتنا حیران ہوئے ہوں گے؟
جب بجلی ایجاد ہوئی ہوگی، اس سے پہلے جب پہیہ ایجاد کیا گيا ہوگا، جب شیشہ ایجاد ہوا ہوگا، تو لوگوں نے سمجھا ہوگا کہ اب تو دنیا کا اینڈ ہے، اب اس سے آگے کیا ترقی ہونی ہے؟ (شاید یہی وجہ ہے کہ زمانہ قدیم سے ہی وقتا فوقتا کہیں نہ کہیں سے یہ دعوی سامنے آ جاتا ہے کہ اتنے سالوں بعد قیامت آنے والی ہے!! حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں، قیامت تبھی آئے گی، جب اللہ کا حکم ہے اور جس کی نشانیاں قرآن وسنت میں بیان کی گئی ہیں)
لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ یہ اللہ کی سنت کونی ہے کہ ہر آنے والے دن میں کوئی نہ کوئی نئی ایجاد ہوتی رہے گی۔ اصل یہ بھی ایک طرح سے انسانی سوچ کے محدود ہونے اور اللہ تعالی کی قدرت کاملہ کی وسعت کی نشانی ہے کہ انسان اپنے تمام تر علم و تجربے اور ترقی کے باوجود جس کو انتہا سمجھتا ہے، وہیں سے اللہ رب العالمین گویا ایک نئے دور کا آغاز کردیتے ہیں…!!
لہذا یہ نئی ایجادات در اصل ترقی کی انتہا نہیں یا دنیا کا اینڈ نہیں.. بلکہ یہ ایک نئے دور اور ماحول کا آغاز ہوتا ہے۔
ٹی وی، موبائل، انٹرنیٹ پھر سمارٹ فون چند سال پہلے متعارف ہوا، لیکن ان سب حیران کن ایجادات کی موجودگی میں ’اے آئی’ (Artificial Intelligence) اور اس کے مختلف ٹولز نے آکر دھوم مچادی!!
لیکن لوگ ایک بار پھر سمجھ رہے ہیں کہ اب تو ترقی کا اینڈ ہے، اب تو اس سے آگے قیامت ہی آئے گی۔ ایسی بات نہیں یہ بھی دیگر ایجادات کی طرح ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ آئندہ چند سالوں اور دہائیوں بعد یہ اتنی عام اور معمولی سے بات ہو جائے گی کہ لوگوں کے شب و روز کا حصہ بن جائے گی۔
اور لوگ مزید کسی حیران کن ایجاد کے لیے سرپٹ دوڑ رہے ہوں گے۔اور جس طرح آج ہم حیران ہوتے ہیں کہ لوگ جہاز، موبائل، کمپیوٹر کے بغیر کتنی مشکل زندگی گزارتے ہوں گے، اسی طرح آئندہ نسل یہ سوچے گی کہ یہ (Artificial Intelligence) کے بغیر زندگی کتنی مشکل ہوتی ہو گی؟!
ترقی کی اس دوڑ میں کچھ باتیں ہمارے لے کلیئر ہونی چاہییں:
1۔ کوئی بھی نئی چيز ایجاد ہونے سے پہلے چونکہ لوگوں کو اس کی عادت نہیں ہوتی، اس لیے ان کے لیے اس سہولت کی عدم موجودگی اس طرح محسوس نہیں ہوتی، جس طرح کے سہولت آنے کے بعد غائب ہو جائے تو ہمیں محسوس ہوتی ہے۔ مثلا آج بجلی جاتے ہی ہمارے کلیجہ منہ کو آنا شروع ہوجاتا ہے، حالانکہ ہمارے دادا پڑدادا کی زندگی میں اس سہولت کا نام و نشان بھی نہیں ہوگا اور وہ اس کے بغیر بہترین زندگی گزارتے تھے۔
2۔ کوئی بھی نئی ایجاد اگر جائز سہولت پیدا کر رہی ہو، تو اسے استعمال کرنے میں حرج نہ سمجھیں، بالکل بعض دفعہ اس کا استعمال کرنا ضروری ہوجاتا ہے، کیونکہ زمانے کی ترقی کی رفتار سے ٹکراؤ میں کوئی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ مثلا اگر کوئی شخص کہتا تھا کہ میں بجلی استعمال نہیں کروں گا، تو آخر وہ کب تک اس بات پر قائم رہ سکا ہوگا، اور یہ ضد کیا اس کی نسل میں بھی باقی رہی ہوگی؟ اسی طرح اگر آج کوئی موبائل استعمال نہیں کرتا، تو آخر کب تک؟ اور کیا اس کے بچے اس سے بچ پائیں گے؟
کوئی یہ کہے کہ میرے پڑدادا نے پیدل حج کیا تھا، میں بھی ویسے ہی کروں گا، تو وہ اپنی جان مال اور وقت کا کس قدر نقصان کرے گا؟
طلبہ پر یہ پابندی کب تک کامیاب رہ سکتی ہے کہ تم نے ہوم ورک کے لیے موبائل/کمپیوٹر وغیرہ کا استعمال نہیں کرنا؟
3۔ نت نئی ایجادات کے حوالے سے ہمیں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان کے مفید اور مثبت پہلو جو ہمیں چالیس پچاس سال بعد سمجھ میں آتے ہیں، انہیں ذرا جلدی سمجھ لیا جائے اور ان میں موجود مفاسد کا سدِ باب بروقت کر لیا جائے تو شاید ہماری موجودہ اور آئندہ نسل کو سنبھلنے اور فتنوں کا قلع قمع کرنے میں کم وقت لگے گا۔
آج اگر کوئی طالبعلم (Artificial Intelligence) کی مدد سے مقالہ تیار کرکے لے جائے تو شاید اساتذہ اس سہولت پسندی بلکہ خیانت اور بدتمیزی کو برداشت نہیں کریں گے، جیسا کہ آج سے کچھ سال پہلے تک کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی مدد سے تحریر تیار کرنا جرم تھا۔ لیکن یاد رکھیں چند سالوں بعد آپ کو کوئی نہ کوئی ماڈل تیار کرنا ہی پڑے گا کہ (Artificial Intelligence) کو استعمال کرتے ہوئے ہی آپ طلبہ کی ذہنی استعداد کو جانچنا ہوگا۔
فرق صرف اتنا ہے کہ آج کے اساتذہ ان چيزوں سے ناواقف ہیں، اس لیے وہ طالبعلم سے یہ چالاکیاں برداشت نہیں کرسکتے!! کل کو ایسے اساتذہ آجائیں گے جو انہیں ٹولز کے ذریعے ہی طالبعلم کی لکیریں نکلوا دیں گے!!
4۔ بات یہ ہے کہ سہولیات پر پابندی نہیں ہونی چاہیے، بلکہ ان کے آنے کے ساتھ ساتھ اسلوب اور طریقہ کار بدلنا چاہیے اور تحقیق کا معیار بلند یا بہتر ہونا چاہیے۔ مثلا آج سے پچاس سال پہلے طالبعلم کا ایک سو صفحے کی کتاب محض نقل کرلینا ہی ایک بہت بڑا کام تھا، لیکن اب وہ کمپیوٹر کی مدد سے ایک منٹ میں یہ کام کرلیتا ہے، تو آپ کو طالبعلم کو نسخ اور کتابت کی بجائے وہ کام دینا چاہیے جس سے اس کی محنت اور صلاحیت کو جانچا جاسکے۔ اسی طرح آج تک کسی طالبعلم کو یہ کہہ دینا کہ سو صفحات کی کتاب کا خلاصہ لکھ کر لے آؤ، تو یہ اس کے لیے ایک مثبت اور مفید ایکٹیوٹی تھی، جس پر اسے محنت کرنا ضروری تھا، لیکن اب (Artificial Intelligence) کے آنے کے بعد یہ کوئی کام نہیں ہے، ایک ٹرین شدہ مشین یہ کام آپ کو چند منٹوں میں کرکے دے سکتی ہے!! (جیسا کہ اس طویل تحریر کا عنوان اور اس کے شروع میں دیا گیا خلاصہ چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے تیار کیا گيا ہے)
مزید مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ احمد شاکر اور شیخ البانی کے زمانے میں کتاب کی تخریج کرتے وقت زیادہ سے زیادہ حوالے اور تحقیق کرکے تعلیقات لگانا ایک محنت طلب اور منفرد کام تھا. کیونکہ ان لوگوں نے مطبوعات و مخطوطات کو کھنگال کر درجنوں بلکہ بعض دفعہ سیکڑوں صفحات پڑھ کر ایک ایک لفظ اور سطر لکھنی ہوتی تھی.. جب کے بعد کے محققین کے پاس کمپیوٹر اور شاملہ جیسے ٹولز آگئے، وہ بیٹھے بیٹھے ہزاروں کتابوں سے درجنوں حوالے محض پانچ منٹ میں نکال لیتے ہیں، اور پھر سارا کاپی پیسٹ ملبہ اکٹھا کرکے ضخیم کتابیں چھاپ دیتے ہیں..!! حالانکہ جب کمپیوٹر اور مطبوعات ہر کسی کی دسترس میں ہیں، تو پھر محض کاپی پیسٹ کی بجائے انتہائی مختصر اور ضروری تعلیقات اور حواشی پر اکتفا ہی سمجھداری اور علم کی علامت ہے!
سہولیات میں خرابی نہیں، خرابی اس ذہن میں ہے، جو حالات کے ساتھ خود کو بہتر نہیں کرتا۔
5۔ چیٹ جی پی ٹی وغیرہ ٹولز جنہوں نے ایک سال سے اودھم مچایا ہوا ہے، ان کی بنیاد کس چیز پر ہے؟ ان کی بنیاد چند سال کا انٹرنیٹ کا ڈیٹا ہے، جسے لوگوں نے جائزہ لے کر اینلائز کرکے، اس کی بنیاد پر کمپیوٹر کو ٹرین کردیا ہے کہ کوئی کیا لکھے تو آپ نے آگے سے کیا جواب دینا ہے؟
سوال یہ ہے کہ انگریز چند سالوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر دنیا کو حیران کرسکتا ہے، تو ہم مسلمانوں کے پاس تو چودہ سو سالہ مواد اور لٹریچر موجود ہے، ہمارے پاس تو آج سے چودہ سو سال پہلے کا دنیا کا نقشہ اس طرح کتابوں میں لکھا ہوا ہے، جیسا کہ کوئی خود وہاں موجود ہو۔ ہم ان سب کو جدید ٹیکنالوجی کے سانچے میں کیوں نہیں ڈھال سکے؟
غیبت کیا ہے؟ اس میں اور چغلی میں کیا فرق ہے؟ کیا عورت پر بھی غسل واجب ہے؟ حیض میں طلاق ہوجاتی ہے؟ نماز میں بھول جائیں تو کیا کریں؟
یہ سب وہ سوال ہیں جو اس وقت تک بھ ہر عالم دین کو کوئی نہ کوئی ضرور پوچھتا ہے۔ حالانکہ ان سوالوں کا جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی دیا تھا، اور اس کے بعد صحابہ و تابعین اور فقہ و حدیث کی کتابوں میں بیسیوں بلکہ سیکڑوں مرتبہ ان مسائل کو سوال و جواب کی شکل میں پیش کیا گیا ہے… لیکن ہم آج تک ان میں سے کسی ایک سوال کو اسلامی تاریخ کے تسلسل کو سامنے رکھتے ہوئے، اس کے مختلف حالات و واقعات میں فرق کرکے دیے گئے جوابات مرتب نہیں کرسکے…!!
یہ محض لاپروائی اور سستی ہے، اس کی کوئی اور جسٹیفکیشن نہیں ہے!!
کیونکہ ہمارے نزدیک آج بھی تحقیق اس بات کا نام ہے کہ جو کچھ پہلے لکھا ہوا ہے، اس کو بلا نام ذکر کیے کاپی پیسٹ کردیا جائے۔ حالانکہ آج ڈیٹا سائنس اور (Artificial Intelligence) کا دور ہے، جس میں پہلے سے موجود چیزوں کو کاپی پیسٹ کرنا کوئی کام نہیں ہے، بلکہ اسے جدید ٹیکنیکل سہولیات کے سانچے میں ڈھال کر ایک نئے انداز سے پیش کرنے کی ضرورت ہے!!
باتیں بہت لمبی ہیں لیکن سمجھ نہ رکھنے والوں کے لیے.. جو ان موضوعات کو سمجھتے ہیں، وہ گھنٹوں اس پر بلا تکان بول اور سن سکتے ہیں.. اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ترقی اور ٹیکنالوجی کی انتہا نہیں، بلکہ ایک نئے دور کا آغاز ہے، جس پر ہمیں بہت کہنے سننے اور کام کرنے کی ضرورت ہے!!
آخر میں ایک مشہور زمانہ سوال بھی ملاحظہ کرلیں کہ کیا (Artificial Intelligence) کی بنیاد پر بنائے گئے ٹول علماء، مفتیان اور عدالتوں کی ضرورت کو ختم کردیں گے؟
جواب ملاحظہ کریں:
’’(Artificial Intelligence) فتاوی اور عدالتی فیصلوں کے معاملے میں بھی استعمال کی جا سکتی ہے. اس سے افراد کو اہم مسائل میں راہنمائی حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، لیکن آخری فیصلہ آدمیوں پر ہی منحصر ہو گا، جو عام اصولی باتوں اور انفرادی حالتوں میں فرق کو سمجھتے ہیں’’.
یہ جواب میں نے چیٹ جی بی ٹی سے ہی لے کر آپ کے سامنے رکھا ہے۔ جس میں اس مشین ( اور اسے تیار کرنے والوں) نے بذات خود یہ اقرار کیا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی جتنی مرضی ترقی کر جائے، انسانوں کی اہمیت و ضرورت کو ختم نہیں کیا جاسکتا!!
اس بات کو بہتر طریقے سے سمجھنے کے لیے دو باتیں اور ملاحظہ کرلیں:
1۔ مشین کو ٹرین کرنے والے انسان ہی ہیں۔ قیامت تک کبھی ایسے نہیں ہوسکتا کہ کوئی مشین انسانی مداخلت کے بغیر خود بخود ٹرین ہوجائے، یہ ہوسکتا ہے کہ انسان کسی ایک مشین کو ٹرین کردے تاکہ وہ آگے مزید مشینوں کو ٹرین کردے.. لیکن کسی بھی مرحلے میں ٹیکنالوجی انسانی دماغ “Human Intelligence” سے ماورا نہیں ہوسکتی۔
2۔ فتوی اور عدالتی فیصلہ کی بنیاد یہ ہے کہ یہ حالات کے بدلنے سے بدلتا ہے۔ جبکہ (Artificial Intelligence) نے پہلے سے موجودہ کیسز کو پڑھ کر ان کی بنیاد پر نتیجہ نکالنا ہوتا ہے۔ گویا جب کوئی نئی حالت یا مسئلہ پیش آجائے گا، تو مشین اس کا درست حل نہیں نکال سکتی، یہ اس مشین اور اس کے خالق و موجد کا اپنا اعتراف ہے۔
لہذا اس پراپیگنڈے کو ختم ہونا چاہیے کہ ٹیکنالوجی کبھی بھی ترقی کرکے، معاشرے کو ’العلماء ورثۃ الانبیاء’ کی رہنمائی سے آزاد کردے گی!!
اگر کسی کو اتنا زعم ہے، تو ابھی جاکر چیٹ جی بی ٹی یا کوئی بھی ائے آئی ٹول کھول لے اور آزما لے!!
یہ مشین بذات خود آپ کو جواب دے گی کہ مجھ سے کسی بھی فیلڈ میں اتنا ہی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، جتنا کوئی اس علم و فن سے متعلق جانتا ہوگا!! ورنہ عمومی ٹامک ٹوئیاں ماری جاسکتی ہیں، ایگزیکٹ اور ایکوریٹ حل کوئی جاہل کسی بھی مشین سے حاصل نہیں کرسکتا!! (لیکن یہ بھی حقیقت ہے، جو ان سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھائے گا، خدشہ یہ ہے کہ وہ کوئی اور نقصان اٹھائے نہ اٹھائے کم ازکم اپنا بہت سارا وقت ضائع کرے گا)
خیر یہ آخری بات ایک جملہ معترضہ کے طور پر تھی، اس تحریر کا اصل مدعا اور مقصد یہ ہے کہ ہمارے مذہبی اور اسلامی معاشرے میں ایسے اہل علم بہ کثرت ہونے چاہییں، جو ان چیزوں کو بہت اچھی طرح سمجھنے والے ہوں، تاکہ ایک تو اس سے مثبت فائدہ اٹھایا جاسکے، دوسرا اگر کوئی جاہل ان کی بنیاد پر فضولیات بولے تو اس کی بھی پکڑ کی جاسکے۔
#خیال_خاطر