سوال (3157)
انجینیر مرزا محمد علی نے کہا ہے کہ تیس پاروں کی تقسیم بنو امیہ کی ہے، اس بارے رہنمائی فرمائیں۔
جواب
خارجیوں کے ان الحکم الا للہ کہنے پہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔ کہ “کلمۃ حق ارید بھا الباطل”، یہ اس نے لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات ڈالنے کے لئے جان بوجھ کر بنو امیہ کا نام لیا ہے اور کہا ہے۔ کہ اس تقسیم میں اتنی قباحتیں ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہو ہی نہیں سکتی اور یہ بنو امیہ کے دور میں کی گئی ہیں، ساتھ میں اسنے رکوع اور پارے کا ربع حصہ کی مثال دی ہے وہاں سعودیہ میں یہ نہیں ہوتا پاکستان میں یہ ربع اور رکوع کی تقسیم ہوتی ہے لیکن یہاں اسنے پاکستانیوں پہ کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن بنو امیہ کو متنازع بنانے اور شیعہ والے قرآن کی تبدیلی کے نظریے کو ہوا دینے کے لئے لگتا ہے اسنے یہ بات کی ہے ورنہ خالی کہ سکتا تھا کہ یہ تقسیم فرض نہیں ہے جیسے ربع یا رکوع فرض نہیں ہے اپنی آسانی کے لئے کسی نے رکوع یا ربع بنائے ہیں تو سبیل المومنین کے تحت اسکو سمجھنا کوئی گناہ نہیں ہے البتہ یہ توفیقی نہیں ہے اجتہادی ہی ہے واللہ اعلم، لیکن جو اسکے دل میں صحابہ کا بغض چھپا ہے وہ بنو امیہ کے نام سے اسکے زبان پہ آ جاتا ہے۔ جبکہ وما تخفی صدورھم اکبر
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ