سوال
کیا خاوند کی طرف سے ٹیلی فون پر منکوحہ کو طلاق ہوجاتی ہے جبکہ وہ واسطہ منکوحہ کا سگا چچا ہو اور فوری طور پر وہ خاوند کا پیغام طلاق منکوحہ تک اور اس کے ورثاء تک پہنچادے؟
2: پہلی طلاق کے بعد مدت رجوع کب تک ہے؟ اور عدم رجوع کی صورت میں تیسری طلاق کب موثر ہوگی؟نیز طلاق ثلاثہ کے بعد اپنی سابقہ زوجہ سے صلح کی صورت میں دوبارہ نکاح ممکن ہے یا نہیں؟اگر ممکن ہے تو اس کی کیا صورت وشرائط ہوں گی؟
مثلاً محمد امین ولد عبد القادر نے مؤرخہ 3/3/2025 کو اپنی منکوحہ شمیم اختر کے چچا عبدالستار کوفون کرکے بتایا کہ میں نے شمیم اختر کو طلاق دے دی ہے اور اس کے چچا نے فوری طور پر شمیم اختر کو فون کرکے پیغامِ طلاق سے آگاہ کردیا اور اس وقت سے اب تک رخصتی نہ ہوسکی جبکہ وہ اِدھر اُدھر عزیز و اقارب کے پاس طرح طرح کی باتیں اور فون بھی کرتا رہتا ہے اور کہتا ہے میں نے طلاق کا مذاق کیا تھا اور وہ رخصتی چاہتا بھی ہےاور نہیں بھی اور وہ غیرمستقل مزاج بخیل اور طنزیہ اسلوب اور دھمکی آمیز رویہ کا حامل شخص ہے۔ قرآن وسنت کی روشنی میں اس مسئلے کا حل فرماکر عندالله ماجور ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا فی الدارین۔
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
1: طلاق بیوی کے سامنے دی جائے یا بیوی کی غیر موجودگی میں دونوں صورتوں میں واقع ہو جاتی ہے، مذکورہ صورت میں اس شخص نے اپنی منکوحہ کو طلاق دی اور اس طلاق کے متعلق اسکے چچا کو بتایا اور چچا نے آگے پیغام پہنچا دیا، اس صورت میں ایک طلاقِ رجعی واقع ہو چکی ہے، کیونکہ شوہر نے طلاق کے واضح الفاظ استعمال کیے ہیں۔
اور خاوند کا بعد میں طلاق کو مذاق قرار دینا شرعا معتبر نہیں۔
جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“ثَلَاثٌ جَدُّهُنَّ جَدٌّ وَهَزْلُهُنَّ جَدٌّ: النِّكَاحُ وَالطَّلَاقُ وَالرَّجْعَةُ”. [سنن أبی داؤد: 2194]
’’تین باتیں ایسی ہیں اگر کوئی ان کو حقیقت اور سنجیدگی میں کہے ، تو حقیقت ہیں اور ہنسی مزاح میں کہے ، تو بھی حقیقت ہیں ۔ نکاح ، طلاق اور ( طلاق سے ) رجوع‘‘۔
لہٰذا یہ طلاق نافذ و معتبر ہے، خواہ فون پر کسی اور کے سامنےدی گئی ہے ، البتہ چونکہ انکی ایک طلاق رجعی واقع ہوئی ہے، اگر یہ دوبارہ گھر بسانا چاہے تو عدت کے اندر اندر رجوع کرسکتا ہے اور اگر عدت گزر گئی ہے تو تجدیدِ نکاح کیساتھ دوبارہ رشتہ قائم کیا جاسکتا ہے۔
2: پہلی طلاق کے بعد عورت کی عدت اور مدتِ رجوع کے حوالے سے تین صورتیں ہیں:
1: اگر عورت حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے۔ [الطلاق: 04]
2: اگر وہ حمل سے نہ ہو تو اسکی عدت تین حیض ہے۔ [البقرہ 228]
3: اور اگر وہ نابالغہ یا آئسہ من الحیض (جس کو حیض آنا بند ہوچکا ہو)ہے تو اسکی عدت تین قمری مہینے ہیں۔ [الطلاق: 04]
اگر عدت کے اندر اندر رجوع نہیں کرتا تو جب عدت ختم ہو جائے گی، وہ عورت اسکے نکاح سے نکل جائے گی۔
اور اگر وقفے وقفے سے عدت کے دوران دوسری پھر تیسری طلاق بھی دے دیتا ہے تو تیسری طلاق کیساتھ وہ بائنہ ہوجائے گی، پھر عدت ختم ہونے کا انتظار کیے بغیر وہ عورت اس كے ليے حرام ہو جاتى ہے، اور رجوع کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ الا كہ اس سےکوئی دوسرا شخص گھر بسانے کی نیت سے شرعى نكاح كرے ، اور پھر وہ شخص فوت ہوجائے، یا پھر ویسے طلاق دے دے، تو ایسی صورت میں پہلا مرد اس عورت سے نکاح کرسکتا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
“فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ”. [البقرة: 230]
اور اگر وہ اسے ( تيسرى ) طلاق دے دے، تو وہ اس كے بعد اس كے ليے اس وقت تک حلال نہيں ہو گى جب تک كہ وہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ