سوال

ٹھیکے یا رہن والی زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار کا عشر ٹھیکہ نکالنے کے بعد فرض ہے یا کل پیداوار سے؟ اور یہ عشر زمین کا مالک دے گا یا ٹھیکہ پر لینے والا؟ کتاب و سنت کی دلیل سے واضح کریں؟

جواب

جس دن فصل کی کٹائی ہو ، سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا چاہیے، اور یہ کل پیداوار سے ادا کیا جائے گا نہ کہ اخراجات نکال کر۔ ارشاد باری تعالی ہے:

“يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ”.[البقرہ: 267]

’اے ایمان والو جو ہم نے تم کو پاکیزہ رزق دیا ہے اس سے خرچ کرو اور اس چیز سے جو ہم نے زمین سے پیدا کیا ہے‘۔

اس لئے زمین سے جتنی بھی پیداوار ہوگی اس کا  عشر دیا جائے گا۔ دوسری جگہ پر قرآن  کریم میں ہے:

“وَهُوَ الَّذِيْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّغَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّالنَّخْلَ وَالزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُکُلُهُ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّغَيْرَ مُتَشَابِهٍ کُلُوْا مِنْ ثَمَرِهِٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَاٰتُوْا حَقَّهُ يَوْمَ حَصَادِهِٓ”. [الانعام:141]

اور وہی ہے جس نے برداشتہ اور غیر برداشتہ (یعنی بیلوں کے ذریعے اوپر چڑھائے گئے اور بغیر اوپر چڑھائے گئے) باغات پیدا فرمائے اور کھجور (کے درخت) اور زراعت جس کے پھل گوناگوں ہیں اور زیتون اور انار (جو شکل میں) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (ذائقہ میں) جداگانہ ہیں (بھی پیدا کیے)۔ جب (یہ درخت) پھل لائیں تو تم ان کے پھل کھایا (بھی) کرو اور اس (کھیتی اور پھل) کے کٹنے کے دن اس کا (ﷲ کی طرف سے مقرر کردہ) حق (بھی) ادا کر دیا کرو۔

اس سلسلے میں شریعت نے پانی کے اخراجات کے اعتبار سے فرق کیا ہے باقی کسی بھی قسم کے اخراجات کا اعتبار نہیں ہے، بارش کے پانی سے فصل ہوئی ہے تو دسواں حصہ اور ٹیوب ویل وغیرہ کے ذریعے پانی سے فصل ہوئی ہے تو بیسواں حصہ ہے۔

سیدنا سالم بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

“فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ کَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ”. [بخاری: 1412، ابو داود: 1596]

جس فصل کو آسمان یا چشمے سیراب کریں یا خود بخود سیراب ہو اس میں عُشر (دسواں حصہ) ہے اور جس کو کنوئیں سے پانی دیا جائے اس میں نصف عُشر (بیسواں) ہے۔

جہاں تک یہ بات ہے کہ عشر زمین کا مالک ادا کرے گا یا ٹھیکیدار؟ تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ عشر زمین پر نہیں ہے، بلکہ اس سے حاصل ہونے والی فصل اور پیداوار پر ہے، اور فصل اور پیداوار کا مالک وہ شخص ہے، جس نے زمین ٹھیکے پر لی ہے، نہ کہ ٹھیکے پر دینے والا، لہذا عشر ادا کرنا بھی اسی شخص کی ذمہ داری ہے جس نے زمین ٹھیکے پر لی ہے۔

مفتیانِ کرام

فضیلۃ الشیخ  ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ

فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ