سوال (1406)
کیا ایسی صورت میں حمل ضائع کرنا جائز ہے ؟ اگر میاں بیوی دونوں تھیلیسیمیا کے مریض ہوں اور بیوی کو حمل ٹھہر جائے ۔ چار ہفتوں بعد ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ بچہ میں بھی اس بیماری کے آثار ہیں ، ڈاکٹر کی تجویز ہے کہ حمل ضائع کردیں کیونکہ اگر بچہ پیدا ہو بھی گیا تو بہت جلد فوت ہو جائے گا ۔
جواب
حمل یا جنین جب اس کی مدت چار ماہ مکمل ہو جائے تو اسے ضائع کرنا بالاجماع حرام ہے، کیونکہ اس وقت اس میں روح پھونک دی جاتی ہے، ارشادِ نبوی ہے:
“إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يَكُونُ فِي ذَلِكَ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ يُرْسَلُ الْمَلَكُ فَيَنْفُخُ فِيهِ الرُّوحَ”. [صحيح مسلم:2643 ]
’تم میں سے ہر شخص کا مادہ تخلیق چالیس دن تک اس کی ماں کے پیٹ میں اکٹھا کیا جاتا ہے، پھر وہ اتنی مدت کے لیے منجمد خون کی شکل اختیار کرلیتا ہے، پھر اتنی ہی مدت کے لیے گوشت کے ایک لوتھڑے کی شکل میں رہتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ فرشتے کو بھیجتا ہے جو (پانچویں مہینے دماغ کی تخلیق ہو نے کے بعد) اس میں روح پھونک دیتا ہے‘۔
البتہ چار ماہ سے قبل کسی عذر یا اضطرار کے سبب یہ کام کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ اس میں اہل علم کے دونوں اقوال ہیں، لیکن ایسی صورت میں بھی احتیاط اور اقرب الی النصوص یہی ہے کہ ایسے اقدام سے گریز کیا جائے۔
رہی یہ بات کہ میاں بیوی دونوں مریض ہیں اور جنین کے بارے میں بھی یہی ہے کہ وہ بھی اسی مرض میں مبتلا ہے اور وہ پیدا ہو کر فوت ہو جائے گا، تو یہ اسقاط حمل کے لیے یہ عذر غیر مقبول ہے۔
کیونکہ جب میاں بیوی دونوں میں سے کسی کو اس مرض کی بنا پر قتل کرنا جائز نہیں اور وہ شفا کی امید پر اپنا علاج کروا رہے ہوں گے، تو پھر آنے والے بچے کے حمل کو اس وجہ سے قتل کرنا کیونکر جائز ہو گا؟
اس دنیا میں موجود کتنے بچے بڑے بوڑھے موجود ہیں جو اس قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں، کیا کسی ڈاکٹر یا مولوی صاحب نے کبھی ان کے قتل کے جواز کا فتوی دیا ہے؟ حالانکہ یہ سب لوگ اس دنیا میں اللہ کی رحمت کے بعد ڈاکٹروں اور دنیا کے ظاہری سہاروں کے رحم و کرم پر ہیں، جبکہ جو بچے پیٹ میں ہوتے ہیں، ان کی حفاظت دنیاوی سہاروں کی بجائے اللہ رب العالمین کے سپرد ہوتی ہے، کوئی بعید نہیں کہ اللہ رب العالمین اسے ماں کے پیٹ کے اندر ہی شفا عطا کر دے۔
فرض کریں اسے ماں کے پیٹ میں شفا نہیں ملتی، تو ہو سکتا ہے پیدا ہو کر اسے شفا مل جائے، فرض کریں یہ بھی اللہ کو منظور نہیں اور وہ بچہ فوت ہو جاتا ہے، تو یہ اللہ کا فیصلہ ہے، لیکن آپ خود اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہ سنائیں!
اور یہ سب اس صورت میں ہے کہ جب ڈاکٹرز کا فیصلہ اور مشینوں کی تشخیص درست مان لی جائے، ورنہ تو عین ممکن ہے کہ یہ تشخیص اور ظن ہی غلط ہو۔ اس میں ساتھ یہ بھی اضافہ کرلیں کہ اسقاط حمل بذات خود عورت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ بیماری اور وفات کا خدشہ یہ ایسا عذر نہیں، جس بنیاد پر کسی حمل یا بچے کے ضیاع کا فیصلہ کیا جائے۔ اسقاطِ حمل کی صرف ایک صورت میں اہلِ علم نے گنجائش نکالی ہے، وہ یہ کہ حمل کا جاری رہنا، اس کی ماں کی وفات کا سبب بن سکتا ہو، تو ایسی صورت میں کامل انسان کی زندگی حمل اور جنین کی جان سے اہم تصور کی جائے گی، اس کے علاوہ اسقاط کی گنجائش موجود نہیں ہے۔
سعودی فتوی کمیٹی کی طرف سے جاری کردہ ایک تفصیلی مضمون میں بھی یہی موقف اختیار کیا گیا ہے۔ ( دیکھیں: مجلۃ البحوث الإسلامیۃ:5/127)، اسی طرح رابطہ عالم اسلامی کی ذیلی کمیٹی ’المجمع الفقهي الإسلامي‘ نے بھی یہی قرار داد پاس کی ہے اور لجنۃ العلماء للإفتاء (فتوی نمبر:361) کا بھی یہی موقف ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
فضیلۃ العالم عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ