تھے تو وہ آباء تمھارے ہی مگر تم کیا ہو؟
1) مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ پر فالج کا حملہ ہوا تو وہ تقریبا پانچ سال تک صاحبِ فراش رہے اور اسی بیماری میں مولانا نے “سير أعلام النبلاء” کا بالاستیعاب مطالعہ کر ڈالا۔ (بروایت مولانا نعیم الحق نعیم رحمہ اللہ)
2) میاں نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب “معیار الحق” کے جواب میں “انتصار الحق” نامی کتاب چھپی تو میاں صاحب نے اسے ایک رات میں بالاستیعاب پڑھ ڈالا حالانکہ وہ بڑی تقطیع کے تقریبا پانچ سو صفحات پر مشتمل تھی۔ (أیضا)
3) تقسیم ہند (1947ء) کے وقت مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ہجرت کی غرض سے نکلے تو اپنے اہل و عیال کو فیروز پور ریلوے اسٹیشن پر چھوڑا اور واپسی کا کہ کر کہیں چل دیے۔واپسی میں تاخیر پر اہل خانہ پریشان تھے تو مولانا کی آمد یوں ہوئی کہ مولانا کے سر پر ایک صندوقچہ تھا اور مولانا دوسرے میں ہاتھ لیے چلتے چلتے اس کا مطالعہ کر رہے تھے۔ (أیضا)
4) سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے:مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کو اپنی کتاب دینے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں تمام کام کی باتیں الگ نوٹ ہو جاتی ہیں۔ (أیضا)
5) مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ 1973ء میں حج پر گئے تو جاتے ہی جو رقم پاس تھی اس کی کتب خرید لیں اور خود آب زم زم پی کر گزارا کرتے رہے (بروایت مولانا فضل الرحمان الازھری)
6) مولانا داؤد غزنوی رحمہ اللہ مطالعہ کی وسعت و کثرت اور تبحّر علمی کے پیش نظر مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کو “کشف الظنون” کہا کرتے تھے۔ (بروایت ڈاکٹر عبدالرحمن الفریوائی)
7) مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی جب دلی میں مولانا شرف الدین محدث کے ہاں تعلیم حاصل کر رہے تھے تو طلبہ کو کھانے کی بجائے وظیفہ ملتا تو مولانا ان پیسوں کی کتب خرید لیتے اور خود تھوڑے چنے کھا کر گزارہ کر لیتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا کا معمول تھا کہ کوئی کتاب پسند آتی تو منہ مانگی قیمت پر خرید لیتے اور فرمایا کرتے:جب کتاب پسند ہو تو قیمت میں کمی یا زیادتی کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ (بروایت مولانا ابوبکر الصدیق السلفی)
8) مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کی کتب سے محبت کا اندازہ یوں لگائیے کہ ان کے ایک استاد مولانا فیض اللہ رحمہ اللہ انہیں بسا اوقات کسی کام کے سلسلہ میں امرتسر بھیجتے تو کرائے کے لیے 4 آنے دیا کرتے تھے۔مولانا فرماتے ہیں میں یہ سفر پیدل کر لیتا(بھوجیاں سے امرتسر 25 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے) اور پیسے امرتسر کسی شخص کے پاس امانت رکھ دیتا۔اس طرح دھیرے دھیرے 25 روپے جمع ہو گئے تو اس رقم سے “فتح الباری” مطبوعہ مطبع انصاری اور “قیام اللیل” للمروزی خرید لی۔مولانا فرماتے ہیں:ان کتب کی جلد بندی کروائی تو رقم ختم ہو گئی اور اس کے بعد پورا ایک سال پیسے کی شکل نہیں دیکھی۔ (بروایت حافظ احمد شاکر)
9) مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی فرمایا کرتے تھے:کتاب مفت حاصل کرنے کی کوشش ذوق کی توہین ہے۔ (بروایت حافظ احمد شاکر)
10) مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کا معمول تھا کہ مستحق طلبہ و اہل علم کو اپنے ذاتی کتب خانہ سے مطالعہ کے لیے کتابیں مہیا کیا کرتے اور حسبِ موقع ان سے مضمون لکھوا کر اس پر محنت کر کے منقّح کر کے انہی کے نام سے شائع کر دیتے۔ (أیضا)
✍️حافظ عبدالرحمن المعلمي