سوال (780)

چند دن پہلے جلسہ میں خطیب صاحب بیان کر رہے تھے کہ ایک بندہ کسی مولوی صاحب سے پوچھتا ہے کہ شرک کیا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا کہ میرے ہاں تشریف رکھیں مسئلہ سمجھا دوں گا بیوی سے کہا کہ مہمان کے لئے کھانا بنائیں، بیوی کے استفسار پر مولوی صاحب نے بتایا کہ یہ بندہ مجھے رشتہ دینے کے لئے آیا ہے تو بیوی آپے سے باہر ہوگئی اور کھانے والے برتن پھینک دیے وہ سائل چل دیا مولوی صاحب کہنے لگے کہ مسئلہ (شرک) تو سمجھ لیں وہ کہنے لگا کہ مجھے سمجھ آگیا ہے۔ (واقعہ مختصر لکھا ہے) خطیب صاحب نے بڑے مزاحیہ انداز میں بیان کیا تھا، تقریر کے بعد خطیب صاحب سے عرض کی کہ ایسے تو مولوی صاحب کی تضحیک ہوئی ہے اور اس نے جھوٹ بول کر بیوی کو تکلیف دی ہے۔ بیوی نے دوسرے نکاح کے حکم کی کھلے عام مخالفت کی ہے، مسئله شرک کی وضاحت قرآن و حدیث میں موجود ہے ایسی فرضی مثالوں کی ضرورت نہیں ہے ، مگر خطیب صاحب فرما رہے تھے کہ اس کے بیان کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، سمجھانے کے لئے بیان کیا جاسکتا ہے میں نے عرض کیا کہ یہ انداز سمجھانے کے لئے نہیں صرف لوگوں کو ہنسانے کے لئے ہے۔ میری باتوں سے خطیب صاحب نے اتفاق نہیں کیا ہے
کیا ایسا انداز مسئلہ توحید سمجھانے کے لیے اختیار کیا جاسکتا ہے؟

جواب

شیخ عبداللہ گرداسپوری رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو منور فرمائے اور آپ کی خدمات قبول فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین ، انہوں بھی ایک مرتبہ اس طرح کی مثال دی تھی ، یقینا اہل علم تو اہل علم ہوسکتے ہیں ، لیکن کبھی کبھار بندے کو اندازہ نہیں ہوتا ہے جو بات کر رہا ہے اس کا تقابل کس طرح ہو سکتا ہے، اور سننے والوں پر کیا آثار پڑتے ہیں ، ممکن ہے کہ اس صاحب نے بھی وہیں سے یہ مثال سنی ہو اور بیان کردی ہو ، بس اہل علم قابل قدر ہوتے ہیں ، ان کو دلائل ، ترغیب و ترہیب سے قائل کرنا چاہیے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ