سوال (1608)

اسلام میں صلہ رحمی کا حکم دیا گیا ہے، لیکن بعض رشتہ دار بہت بدتمیزی کرتے ہیں، گالیاں نکالتے ہیں، تکلیف پہنچاتے ہیں، کیا ان سے قطع تعلقی کی جا سکتی ہے؟

جواب

شریعت میں صلہ رحمی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس کا مطلب ہوتا ہے کہ رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرنا، اگر وہ کوئی غلط رویہ بھی رکھیں تو اسے نظر انداز کر کے ان کے ساتھ اچھے معاملے کی کوشش کرنا۔
لیکن اگر کوئی شخص حد سے بڑے اور حسن سلوک اور صلہ رحمی کی ہر کوشش کے برعکس جواب دے اور آپ کی توہین و تذلیل کرے تو اس سے کنارہ کشی کرنا جائز ہے، تاکہ اس کے شر سے بچا جا سکے۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

«مَنْ خُشِيَ مِنْ مُجَالَسَتِهِ وَمُكَالَمَتِهِ الضَّرَرُ فِي الدِّينِ أَوْ فِي الدُّنْيَا وَالزِّيَادَةُ فِي الْعَدَاوَةِ وَالْبَغْضَاءِ فَهِجْرَانُهُ وَالْبُعْدُ عَنْهُ خَيْرٌ مِنْ قُرْبِهِ لِأَنَّهُ يَحْفَظُ عَلَيْكَ زَلَّاتِكَ وَيُمَارِيكَ فِي صَوَابِكَ وَلَا تَسْلَمُ مِنْ سُوءِ عَاقِبَةِ خُلْطَتِهِ وَرُبَّ صَرْمٍ جَمِيلٍ خَيْرٌ من ‌مخالطة ‌مؤذية». [الاستذكار 8/ 290]

یعنی جس شخص کے ساتھ نشست و برخاست اور بات چیت سے مزید دینی و دنیاوی نقصان یا عداوت و لڑائی جھگڑے کا خدشہ ہو تو اس سے قطع تعلقی اور دوری اختیار کرنا ہی بہتر ہے، کیونکہ اچھے طریقے سے الگ ہو جانا، تکلیف دہ تعلقات نبھانے سے بہتر ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن عبد البر رحمہ اللہ سے یہ بات اس طرح نقل فرمائی ہے:

«أَجْمَعُوا عَلَى أَنَّهُ لَا يَجُوزُ الْهِجْرَانُ فَوْقَ ثَلَاثٍ إِلَّا لِمَنْ خَافَ مِنْ مُكَالَمَتِهِ مَا يُفْسِدُ عَلَيْهِ دِينَهُ أَوْ يُدْخِلُ مِنْهُ عَلَى نَفْسِهِ أَوْ دُنْيَاهُ مَضَرَّةً، فَإِنْ كَانَ كَذَلِكَ جَازَ، وَرُبَّ ‌هَجْرٍ ‌جَمِيلٍ ‌خَيْرٌ ‌مِنْ ‌مُخَالَطَةٍ ‌مُؤْذِيَةٍ». [فتح الباري 10/ 496 ط السلفية]

’اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس شخص سے تعلقات کی وجہ سے دینی نقصان ہوتا ہو یا انسان کو ذاتی یا دنیاوی طور پر تکلیف اور ضرر پہنچتا ہو، اس سے قطع تعلقی کرنا جائز ہے، کیونکہ اچھے طریقے سے الگ ہو جانا، تکلیف دہ تعلقات نبھانے سے بہتر ہے’۔

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ