طرابلس(Tripoli) شمالی افریقہ میں موجود اسلامی ملک لیبیا کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر ہےجس کی اوسط آبادی تقریباً 18 لاکھ سے زائد ہے-یہ شہر بحیرۂ روم کے ساحل اور صحرائے اعظم کے درمیان، ملک کے شمال مغربی پتھریلی علاقے میں واقع ہے- چونکہ لبنان میں بھی طرابلس نامی شہر موجود ہے اس لیے اس لیبیائی شہر کو طرابلس الغرب بھی کہا جاتا ہے۔

طرابلس لیبا کا سب سے بڑا شہر، بنیادی بندرگاہ، سب سے بڑا تجارتی، صنعتی و مالیاتی مرکز ہے۔یہ شہر ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں، غاصبوں اور استعماریوں کی جولاں گاہ بنا رہا ہے- قبل از اسلام اسے سلطنتِ روما نے کئی بار نیست اور پامال کیا- عربوں نے اس علاقہ میں اسلام کا پیغامِ امن و محبت پھیلایا اور یہاں آباد بھی ہوئے اور اسے دنیا کے بہترین علمی مراکز میں شامل کیا- جس کے بعد یہ علاقہ سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِنگیں رہا- اٹلی اور اطالوی استبدادی و استعماری غاصبانہ قبضے کے بعد لیبیا اقوامِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق24 دسمبر1951ء میں مکمل خود مختار ملک بن گیا-
اس سے قبل مسلمانوں نے اس علاقے کو ہجرت کے بائیسویں سال 642 ء میں حضرت عمرو بن العاصؓ کی قیادت میں اپنی قلمرو میں شامل کیاجس کے بعد اس علاقے پر مختلف مسلمان حکمران رہے۔

سولہویں صدی عیسوی سے انیسویں صدی تک یہ عظیم سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا ۔  اٹلی نے 29 ستمبر 1911ء کو طرابلس پر حملہ کر دیا۔ اس وقت لیبیا اور دیگر علاقوں میں بہت قلیل عثمانی فوج موجود تھی جو شاید بہت جلد ہتھیار ڈال دیتی مگر طرابلس و گرد و نواح کے مقامی غیرت مند و حریت پسند عرب اور بربر قبائل کے مجاہدین نے غیر ملکی استعمار کے غاصبانہ قبضہ کو نامنظور کرتے ہوئے ترک فوج کے شانہ بشانہ اپنی جدوجہد کا آغاز کر دیا اور یہ جنگ اکتوبر 1912ء تک چلی-18اکتوبر 1912ء میں معاہدہ لوازن (Treaty of Lausanne) کے تحت پہلی جنگِ عظیم کے شاطر وظالم اتحادیوں کی سازشوں کے باعث ترکی نے شکست تسلیم کرتے ہوئے طرابلس اور لیبیا کے دیگر علاقے اٹلی کے حوالے کردیے-اس کے برعکس مقامی حریت پسند قبائل نے اس معاہدے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اٹلی کے جارحانہ قبضے کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھیں-اس دوران جنگِ بلقان اور پہلی جنگِ عظیم کے دیگر کئی مقابلے چل رہے تھے-البتہ فاشسٹ اٹلی کو طرابلس کے غیور لوگوں کے ہاتھوں زبردست مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور یہ کہنا بجا ہو گا کہ مقامی لوگوں نے اٹلی کی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے ۔
اٹلی کی فوج نے مقامی لوگوں کے خلاف شدید مظالم ڈہائے اور چن چن کر حریت پسند مجاہدین کو مارنا شروع کر دیا- اس کے باوجود مقامی لوگوں کے جوش و جذبہ میں کمی نہ آئی جس کی مثال 14 سالہ فاطمہ بنتِ عبداللہ ہے جس نے اپنے کمال جذبہ شہادت اورعظیم جذبہ جہاد سے سرشارہونے کے باعث اپنے زخمی بھائیوں اور غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا-شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبال نے اپنے مجموعۂ کلام بانگ درا میں ’’فاطمہ بنتِ عبد اللہ ‘‘عنوان سے لکھی گئی نظم میں فاطمہ کو زبردست خراجِ تحسیین پیش کیا۔
فاطمہ! تُو آبرُوئے اُمّتِ مرحوم ہے
ذرّہ ذرّہ تیری مُشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت، حُورِ صحرائی! تری قسمت میں تھی
غازیانِ دیں کی سقّائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سِپَر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گُلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!
اپنے صحرا میں بہت آہُو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہُوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!
فاطمہ! گو شبنم افشاں آنکھ تیرے غم میں ہے
نغمۂ عشرت بھی اپنے نالۂ ماتم میں ہے
رقص تیری خاک کا کتنا نشاط انگیز ہے
ذرّہ ذرّہ زندگی کے سوز سے لبریز ہے۔۔۔۔۔۔

ابو حارث راجپوت