اس کتاب کے بارے میں کیا کہوں…تو کجا من کجا… ہر لکھاری کی تحریر دوسرے سے بڑھ کر…اہل فکر و نظر علم و ہنر کی بستیاں آباد کرتے ہیں اور ہم جیسے بے ہمت ہر ہر سطر پہ صدقے واری جاتے ہیں…اللہ ہو اللہ… جب سید جنید غزنوی صاحب سے مصافحہ کیا تو آپ کے ہاتھ سے ہاتھ لگتے ہی گناہوں سے بیزاری ہوئی اور دل ہی دل میں سوچا آخر کیونکر نہ ہو…آپ اسی طائفہ کے باقی ماندہ حُدی خواں ہیں جن کے بزرگوں اور ان کی نمازوں کے بارے یہی کچھ سنا اور پڑھا ہے…یونانی شہزادوں کے سے ملکوتی حسن والے ان صاحب کا محفل کے آغاز میں پڑھا گیا یہ شعر سالہا سال گزرنے کے باوجود اب بھی کانوں میں رس گھولتا ہے کہ:
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو!
برس ہا برس سے اس ایک مجلس کے سحر میں کھویا تھا کہ یہ کتاب ” ارمغان پروفیسر سید ابوبکر غزنوی
رحمۃ اللہ علیہ” ہاتھ لگی.
کئی ایک ارباب ہجر کی دلی کیفیات پہ مبنی اس کتاب میں بارے میں لکھنے بیٹھا تو ” یارانِ کہن ” کے بارے میں شورش کاشمیری کے لکھے کلمات یاد آ گئے جو خوانندگانِ محترم کے لیے پیش کیے جاتے ہیں…جناب آغا رقمطراز ہیں :
مطالعہ و مشاہدہ کی دل آویز روداد
ہر سطر، سلکِ مروارید
ہر حرف، آبدار موتی
چہرے، الفاظ کی مینا کاری
خاکے، مطالب کی سنگتراشی
یاران کہن کیا ہے؟ اوراق مصور ہیں
جو شکل نظر آئی تصویر نظر آئی
مرحوم صحبتیں
اب ان کے دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں
یکتا شخصیتیں
پھر کہا دنیا میں ایسی ہستیاں
سالک نے انہیں قریب سے دیکھا
اور حسن بیاں کے سانچے میں ڈھالا ہے
آپ یاران کہن کے مطالعہ سے محسوس کریں گے کہ
آپ خود ان گم شدہ محفلوں میں شریک سخن رہے ہیں.
آخر میں یہ ضرور کہنا چاہوں گا:
شکریہ قاری اویس ادریس العاصم صاحب
شکریہ قاری کلیم حسین شاہ بخاری
حافظ عبد العزیز آزاد