سوال (5216)

“طلبہ علم کے لیے ایک غور طلب پیغام” ہم نے اپنے بعض مشائخ سے پوچھا: “طالب علم کو کتنی نیند لینی چاہیے؟” فرمانے لگے: “زیادہ سے زیادہ چھ گھنٹے!” اللہ تعالیٰ ہم پر اور آپ پر رحم فرمائے، ہم کتنی زیادہ نیند سوتے ہیں…! ہمارے بعض مشائخ یہ فرمایا کرتے تھے:
“جو طالب علم فجر کے بعد سوتا ہے، اُس پر چار تکبیریں (جنازہ) پڑھ لو!
اور یہ مت کہو کہ یہ طالب علم ہے!” خصوصاً جب ہمیں معلوم ہے کہ: سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرمایا کرتی تھیں: “اس امت کی صبح میں برکت رکھ دی گئی ہے!”

فضيلة الشيخ محمد هشام الطاهري حفظه الله

کیا یہ بات جو لکھی ہوئی ہے کہ اگر کوئی سٹوڈنٹ طالب علم نہیں اٹھتا صبح کے وقت تو اس پر جنازہ تکبیر پڑھ لی جائے۔ آپ رہنمائی فرمائیں؟

جواب

شریعت کا مزاج توازن اور اعتدال کا ہے، طلباء ہر طرح کے معاملات کو چھوڑ کر حصول علم کے مدارس کا رخ کرتے ہیں، مدارس میں بھی اس توازن کو برقرار رکھتے ہوئے، اوقات کو مرتب کرنا چاہیے، اس میں تعلیم، جسمانی سرگرمیاں، کھانے کے اوقات اور مطالعہ ہونا چاہیے، طلباء کو ایک تو کلاس میں بیٹھ کر پڑھنا ہوتا ہے، اس کے علاؤہ حدیث کے طلباء کو عبارت تیار کرنا ہوتی ہے، جو پڑھا ہوا ہے، اس کو دہرانا بھی ہوتا ہے، ایک شیڈول بنا کر اس شیڈول کی طلباء سے سختی کرکے عمل کروائیں، ایسا جدول ہو کہ جس میں فجر کے بعد سونے کی گنجائش نہ ہو، فجر کے بعد فورا اسباق شروع کردیں، آپ طلباء کو دو پہر سونے نہ دیں، رات کو بارہ ایک بجے تک بیٹھا رہے تو وہ صبح کتاب کو ٹکریں مارے گا۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ