تمھیں زمیں پر مٹانے والا، کوئی نہیں ہے
زیست کے لمحات میں کرب گُھل جائیں تو پھر زندگی کے سارے رنگ ڈھنگ، تمام رشتے ناتے اور سبھی جذبات و احساسات مدھم اور پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ ایسے دگرگوں حالات میں اگر چند ثانیوں کے لیے خوشیاں اور مَسرّتیں کسی دل آویز جھونکے کی مانند مشامِ جاں کو چُھو بھی جائیں تو ان میں وہ لذّت اور ویسی دل بَری نہیں ہُوا کرتی کہ جن سے اچھی طرح مسرور اور محظوظ ہُوا جا سکے۔ مستقل بنیادوں پر ملنے والے دکھ انسان کا اچھا اچھا لہو نچوڑ لیتے ہیں، زرد پتّوں کی مانند بھٹکتی آنکھیں ہر سُو خوشیوں کا تعاقب کرتی ہیں مگر تلاشنے اور کھوجنے کے باوجود سکون اور سُرور کہیں دِکھائی نہیں دیتا۔ آگ اگلتے بموں کا مقابلہ پتّھروں سے کرنا، چیختے چنگھاڑتے طیاروں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہلکے اور روایتی ہتھیاروں کو لے کر نکل آنا، موت کا پیغام بن جانے والی گذرگاہوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کا مقابلہ سینہ تان کر کرنا، اتنا سہل نہیں ہُوا کرتا اور ایسا کچھ کرتے ہوئے سالوں بیت جانا، کئی نسلوں کا پروان چڑھ جانا، انتہائی جان لیوا ہُوا کرتا ہے۔ آفرین ہے اُن بے سروسامان اور نہتّے لوگوں پر کہ ہزاروں نوجوانوں کو قربان کروانے کے باوجود آزادی کے حصول کی دیوانگی میں آج بھی تروتازگی اور تابندگی بہ درجہ ء اَتَم موجود ہے۔ سلام ہے فلسطینی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عظمت اور رفعت کو جن کے بیٹے اور بھائی بارگاہِ شہادت میں اپنے معطّر خون کا نذرانہ پیش کر چکے۔ تین تین شہید بیٹوں کی پیشانی کا بڑے طمطراق کے ساتھ بوسہ لیتی ہوئی ان ماں کا عزم واستقلال آزادی کی گویا ایک جگمگاتی کرن ہے۔ فرحت عباس شاہ نے کہا ہے۔
رہِ جنوں میں یہی زادِ راہ ہوتا ہے
کہ جستجو بڑھے دیوانگی بحال رہے
غزہ میں اسرائیلی بم باری سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ہزاروں ہو چکی ہے۔ جن میں سیکڑوں بچے اور درجنوں خواتین بھی شامل ہیں۔ ہزاروں فلسطینی زخمی ہیں۔ کتنے ہی فلسطینی خاندان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ہیں مگر اقوامِ متّحدہ سے لے کر مسلم ممالک تک سبھی پر گہرا سکوت طاری ہے۔ محض دل جلا دینے والے ایک دو رسمی سے بیابات کے سوا عملی طور پر کچھ بھی تو نہیں۔ اقبال ارشد نے یہ المیہ یوں کہا ہے۔
ہماری جان پہ بھاری تھا غم کا افسانہ
سُنی نہ بات کسی نے تو مر گئے چپ چاپ
عرب دنیا پر سرد مہری طاری ہے، مسلم دنیا کے لبوں پر ٹانکے لگا دیے گئے ہیں کہ کہیں سے کوئی ایسی مؤثر صدائے احتجاج نہیں اٹھ رہی جو خراٹے لیتی حمیّت کو جھنجوڑ ڈالے۔ ڈیڑھ ارب جیتے جاگتے مگر پتّھر دل مسلمانوں اور 57 اسلامی ممالک کے سنگلاخ دل حکمرانوں کی زندگیوں میں اِس قدر بے مروّتی اُگ آئے تو پھر ذلّتیں مسلّط ہو جانے سے کوئی روک ہی نہیں سکتا۔ ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ اگر ہمارے صحنوں اور آنگنوں کو اِس طرح لتاڑ اور اجاڑ دیا جائے، خدانخواستہ اگر ہمارے بچوں کو اس بے دردی کے ساتھ مسل دیا جائے تو ہمارا سارا طرب کس طرح کرب میں بدل جائے گا؟ ہماری رگوں میں اگر حمیّت ایسے ہی مفقود رہی تو پھر انتظار کیجیے ایسے ظلم وستم سے آپ کو بھی کوئی نہیں بچا سکتا۔
مسلم اُمّہ پر فرنگیوں اور یہودیوں کا یہ ظلم و ستم صدیوں سے جاری ہے، تاریخ کھنگال کر دیکھ لیجیے! 493 ہجری (1099 ء) میں جب بیت المقدس پر عیسائیوں نے قبضہ کیا تو 70 ہزار مسلمانوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کیا اور پھر اس قتل پر ان کے دلوں میں موجود بغض و عناد کو قرار نہ آیا تو مسلمانوں کی لاشوں سے اُن کے سَر کاٹ کر الگ کر دیے۔ اُن کے ناک، کان، ہاتھ اور پاؤں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے۔ اس شقی القلبی پر بھی اُن کے کلیجوں میں ٹھنڈ نہ پڑی تو ان قیمہ بنی لاشوں کو آگ لگا کر جلا ڈالا۔ مئی 1948 ء سے اب تک اس مقدّس سرزمین پر صہیونی مُلک کو قائم ہوئے 76 سال ہو چکے مگر خونِ مسلم مسلسل بہایا جا رہا ہے، وہ مقدّس سرزمین جس کے متعلّق امام حاکمؒ نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلّم تحریر کی ہے کہ مسجدِ اقصٰی میں ایک نماز کا ثواب ڈھائی سو نمازوں کے برابر ہے۔ وہ ارضِ مقدّس جہاں نبی مکرّم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو سفرِ معراج کے لیے لایا گیا اور یہیں سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے آسمانوں کا سفر شروع کیا، وہ پاکیزہ سرزمین آج یہودیوں کے ہاتھوں خونِ مسلم سے سُرخ ہے۔
آئیے! ہم فلسطینی مسلمانوں کی لاشوں، اُن کے زخمی لرزتے، سسکتےاور تھرتھراتے وجود کی طرف دھیان دیں کہ اُن کے لیرولیر جسم اور خون سے اٹے بدن ہم سے کچھ کہنا چاہتے ہیں، اُن کے کٹے پھٹے رخسار ہم سے مخاطب ہونا چاہتے ہیں، اسرائیلی فوجی کے گُھٹنے تلے تڑپتی فلسطینی بہن کی بے بسی ہم سے فریاد کناں ہے، اُن کے خون آلود آنسوؤں سے تر آنکھیں ہم سے بہت کچھ کہنے کے لیے بے تاب ہیں، اُن کے دہشت زدہ چہرے ہم سے ہم کلام ہونا چاہتے ہیں کہ اے کٹھور دل مسلمانو! ہم اپنی کھنڈر اور ویران زندگی میں امید کے غنچے چٹکنانے کے لیے تمھاری مدد اور توجہ کے منتظر ہیں، اگر تمھاری گذرگاہِ حیات میں ہماری التجاؤں اور فریادوں کا کچھ اثر ہو جائے تو خدارا! ہماری مدد لے لیے کھڑے ہو جائیں۔ یہودی فوجیوں کی حراست میں حیفہ کی مریم عساف کے لبوں کا تبسّم، القدس کو اسرائیل کے ناپاک وجود سے پاک کرنے کا ایک جنون اور عزم ہی تو ہے۔ القدس کی ناقابل شکست بیٹیاں میدانِ عمل میں ہیں، سوال یہ ہے کہ القدس کے بیٹے کہاں ہیں؟ مسجدِ اقصیٰ سے مَحبّت کے دعوے دار کہاں گم ہو گئے؟ اور صلاح الدّین ایوبیؒ کے روحانی فرزند نظر کیوں نہیں آ رہے؟ کیا منظر بھوپالی ٹھیک کہتا ہے؟
اب آسمانوں سے آنے والا، کوئی نہیں ہے
اٹھو! کہ تم کو جگانے والا، کوئی نہیں ہے
محافظ اپنے ہو آپ ہی تم یہ یاد رکھو
پڑوس میں بھی بچانے والا، کوئی نہیں ہے
حق کے داعیوں اور جہدِ مسلسل کے خوگروں کے لیے یہ تیسرا شعر بڑا ہی نوید افزا اور امید کی جوت جگانے والا ہے۔
خدا نے وعدہ کیا ہے تم سے اے حق پرستو!
تمھیں زمیں پر مٹانے والا، کوئی نہیں ہے
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )
یہ بھی پڑھیں: مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ؒ علمی و دعوتی شخصیت