اداس آنکھوں سے مسکرانا
ہر کسی کی حیات کا ایک نصاب اور حساب، اللّہ کے ہاں تقدیر کی کتاب میں مرقوم اور مرتّب ہے۔ تقدیر یہی ہے کہ بعض معاملات میں انسان انتہائی مجبور اور بے بس ہے جب کہ کچھ امور میں مختار اور بااختیار۔ تقدیر کا معنی اور مفہوم ہرگز یہ نہیں کہ انسان سماج کی روش، چلن اور رنگ ڈھنگ سے تنگ آ کر، جستجو اور جدوجہد سے دامن چھڑا کر تھک ہار کر بیٹھ جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تنگ دستی، غربت اور افلاس کے آزار انسان کے ہاتھوں سے زندگی کے پتوار کی گرفت کو کم زور کر دیتے ہیں۔ اس حقیقت میں بھی کوئی شبہہ نہیں کہ بے روز گاری کے نوکیلے خار ساری زیست کو کاہل و نزار بنا ڈالتے ہیں۔ انسان یہ بھول جاتا ہے کہ لہریں اور جوار بھاٹا تو انسانی حیات کا حصّہ ہوتے ہیں۔ ان کے بنا تو زندگی کا سارا رعب، طنطنہ اور تمکنت ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے، مگر بہت سے لوگ غربت اور افلاس سے ہاتھا پائی کر کے اسے لتاڑنے اور پچھاڑنے کی بجائے خود ہی اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔معلوم نہیں مایوسی کے یہ کیسے اندھیرے ہوتے ہیں جو ان کے اندر زندہ رہنے کی خواہش کو چاٹ جاتے ہیں۔آنس معین کی بے بسی بھی دیکھیے۔
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے
یہ اللّہ ربّ العزت کی رحمت سے ناامیدی کی انتہائی مکروہ صورت ہوتی ہے کہ انسان خود کو موت کے گھاٹ اتار لیتا ہے۔ اس لیے افلاس سے زیادہ خطرناک چیز مایوسی اور نا امیدی ہے اور یہ محروم اور مجبور انسان کے اندر خود رو خاردار جھاڑیوں کی مانند اگنا شروع کر دیتی ہے اور پھر ایسا انسان اندر ہی اندر ٹوٹتا پھوٹتا چلا جاتا ہے۔ بے یقینی اور ناامیدی کی دبیز کائی انسان کی سوچ اور فکر پر قابض ہو کر اسے اندر سے اتنا گلا سڑا دیتی ہے کہ ایسا انسان اپنی سڑی بُسی سوچ کے کدال اور پھاوڑے کے ساتھ اپنے وجود کو کھودتا چلا جاتا ہے اور پھر ایسی سوچ اور فکر کا شاخسانہ خود کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
عالمی ادارہ ء صحت کے خود کشی کے متعلق اعداد و شمار اتنے بھیانک اور دل دوز ہیں کہ جو کسی بھی طویل عرصے پر محیط جنگ کی ہلاکت خیزی سے بھی زیادہ ہیں۔ عالمی ادارہ ء صحت کے مطابق دنیا میں ہر چالیس سیکنڈ کے بعد ایک انسان خود کشی کر رہا ہے۔ یعنی ہر گھنٹے بعد نوّے اور ہر روز دو ہزار ایک سو ساٹھ لوگ اپنے ہاتھوں خود مر رہے ہیں۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران پنجاب میں خود کشی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔خود کشیوں کا ایک بھیانک تسلسل ہے جو معاشرتی اطوار کو مسمار کرتا جا رہا ہے۔ گذشتہ ہفتے چوک سرور شہید کی شریفاں بی بی نے کالا پتھر پی کر زندگی سے منہ موڑ لیا۔ لیّہ کی ایک خاتون زندگی سے روٹھ چلی، چنیوٹ میں اعجاز نامی شخص نے اپنی بیوی، دو بیٹیوں اور ایک بیٹے کو گولی مار کر خود کشی کر لی۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال پانچ ہزار افراد خود کشی کر لیتے ہیں۔ خود کشی کرنے والوں کی عمریں پندرہ تا چوالیس سال کے درمیان ہوتی ہیں۔خود کشیوں کے خلاف مصروفِ عمل عالمی تنظیم انٹر نیشنل ایسوسی ایشن فار سوسائیڈ پری وینشن کے مطابق دنیا بھر میں خود کشی کرنے والوں کی تعداد دہشت گردی اور جنگوں کے نتیجے میں مرنے والے افراد سے کہیں زیادہ ہے۔ کہا یہی جاتا ہے کہ غصّہ، ڈیپریشن، مایوسی اور ناامیدی ہی خود کشی کے بنیادی محرّکات ہیں۔ یہ بھی درست ہے مگر حقیقت میں اسلام سے دوری ہی خود کشی کا اصل موجب ہے۔ خود کشی کے متعلق احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو یہی بات عیاں ہوتی ہے کہ ایسا شخص کبھی جنّت میں داخل نہیں ہو سکے گا۔ دنیاوی بکھیڑوں اور جھنجٹوں سے تنگ آ کر موت کو گلے لگانے والا انسان یہ سمجھتا ہے کہ شاید اب اسے سکون میسّر آ جائے گا مگر اسے یہ خبر ہی نہیں کہ آخرت کے عذاب کے سامنے یہ دنیاوی مسائل کچھ بھی تو وقعت نہیں رکھتے۔یقیناً اپنی جان خود لینے والے انسان کبھی جنّت کی خوشبو بھی نہ سونگھ پائیں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ زندگی میں بعض اوقات دھڑکنیں بہت زیادہ بے ترتیب ہو جاتی ہیں۔کتنی ہی بار زندگی کے ہم سفر، ہم نشین، ہم نوالہ اور ہم پیالہ سب دغا دے جایا کرتے ہیں۔ متعدد بار وفاؤں کا دم بھرنے والے بہ ظاہر معصوم، سادہ لوح اور لطیف احساسات کے حامل لوگ بھی تیور بدل کر پتھر دل بن جاتے ہیں۔ زندگی کی راہ گذر پر بہت سے وہ لوگ بھی تنہا چھوڑ جاتے ہیں کہ جن پر انسان کو اپنی ذات سے بھی زیادہ یقین اور اعتبار ہوتا ہے۔ ان کے یوں دامن چھڑا لینے سے انسان اپنے بکھرے وجود کو سمیٹ ہی نہیں پاتا۔ لیکن ان تمام باتوں کا حاصل یہ تو نہیں کہ انسان اپنی زندگی ہی ختم کر ڈالے۔ یقیناً ایسے لوگ صبر کی لذّت، شُکر کی چاشنی اور تحمّل کے تمام ذائقوں سے محروم ہوتے ہیں۔ جب جب مسائل زندگی میں دَر آئیں، جب بھی کسی انسان کا مرنے کو جی چاہے، جب کبھی ناتمام خواہشیں اور ادھورے خواب پورے کرنے کے جتن میں ناکامی و نامرادی انسان کو پژمردہ کر ڈالے تو قرآن کو کھول کر اسے ترجمے کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیجیے۔واللّہ! ایسا سکون دل پر اترنے لگے گا کہ خود اذیتی کے سارے احساسات، اپنی جان خود لینے کے تمام جذبات سے انسان کا من پاک و پوتر ہو جائے گا۔ برائی اداس ہونا نہیں بلکہ مایوس ہو جانا ہے، سو اداسی میں بھی مسکرانے کی کوشش کیجیے۔
( انگارے۔۔۔حیات عبداللہ )