سوال (6400)
مجھے ایک وقت مالی ضرورت پیش آئی۔ میری والدہ محترمہ کے پاس ذاتی ملکیت میں دس تولہ سونا تھا۔ انہوں نے خود ارادہ کیا کہ اس سونے کو فروخت کر کے اس کی رقم اپنی اولاد میں برابر تقسیم کریں گی۔ اسی دوران میں نے ان سے درخواست کی کہ سونے کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم ایک سال کے لیے مجھے دے دیں، اور میں ایک سال کے اندر وہی طے شدہ رقم واپس کر دوں گا۔
اس پر میری والدہ محترمہ خود میرے ساتھ جیولری شاپ گئیں اور انہوں نے دس تولہ سونا فروخت کر کے تقریباً انیس لاکھ روپے حاصل کیے، جو مجھے دے دیے گئے۔ اس وقت ہمارے درمیان یہ بات واضح تھی کہ سونا واپس نہیں بلکہ رقم واپس کرنا ہوگی۔
تاہم میں ایک سال کے اندر رقم ادا نہ کر سکا اور اب تقریباً دو سال گزر چکے ہیں۔ اس دوران سونے کی قیمت دُگنی ہو گئی۔ اس کے بعد میرے بہن بھائیوں نے شدید اعتراض اور احتجاج شروع کر دیا ہے اور وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ: یہ سونا دراصل ہماری وراثت کا حصہ بنتا تھا۔
اسے فروخت کروا کر یا رقم لے کر ہمارا حق غصب کیا گیا ہے۔
اور اب قیمت بڑھنے کے بعد ہمیں رقم نہیں بلکہ سونا یا اس کی موجودہ قیمت کے مطابق حصہ ملنا چاہیے
اسی بنیاد پر میری والدہ محترمہ بھی یہ کہہ رہی ہیں کہ چونکہ میں نے مقررہ مدت میں رقم واپس نہیں کی، اس لیے وہ اب رقم لینے کے بجائے دس تولہ سونا واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
میں بعض علماء کرام سے پوچھ چکا ہوں، جنہوں نے اس صورت میں سود یا کسی شرعی قباحت کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ میری نیت یہ ہے کہ نہ میں اور نہ ہی میری والدہ کسی شرعی غلطی میں مبتلا ہوں اور نہ ہی کسی کا حق ناحق ضائع ہو۔ براہِ کرم شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں کہ: اس صورت میں مجھ پر شرعاً کیا لازم ہے؟
تاخیر کی وجہ سے سونا واپس کرنا لازم ہو جاتا ہے یا نہیں؟
اور قیمت بڑھنے کی بنا پر بہن بھائیوں کا اعتراض اور مطالبہ شرعاً درست ہے یا نہیں؟ جزاکم اللہ خیراً
جواب
آپ پیسے واپس کرنے کے پابند ہیں، آپ نے پیسے لیے تھے، اس کو اعتراض کرنا تھا، اس وقت کرتا۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ




