علمائے کرام کی پے در پے رحلت ایک فکری زلزلہ
قسط (اول )
سورج اگر وقت پر مشرق سے طلوع نہ ہو، تو ظلمت کے پردے کب چھٹتے ہیں؟
علم اگر زندہ نہ رہے، تو دلوں کی روشنی کب باقی رہتی ہے؟
اور اگر علماء نہ رہیں، تو علم کا چراغ کس ہاتھ میں ہو گا؟
جنوری 2024ء سے لے کر دسمبر تک کے ایام میں، اہل حدیث مکتبہ فکر کے 101 علماء کا یکے بعد دیگرے دنیا سے رخصت ہونا محض ایک المیہ نہیں، ایک فکری زلزلہ ہے۔ ہر جنازہ ایک دروازہ بند کر گیا، ہر قبر ایک لائبریری کو مٹی میں دفن کر گئی، اور ہر تعزیتی پیغام ایک ایسا سوال چھوڑ گیا جس کا جواب ہمیں دینا ہے: اب کیا ہو گا؟
یہ وہ ہستیاں تھیں جن کے سینوں میں علم تھا، جن کی زبانوں پر حق تھا، جن کی دعاؤں میں امت کا درد تھا، اور جن کی آنکھوں میں اصلاح امت کے خواب تھے۔ آج جب ان چراغوں کو یکے بعد دیگرے بجھتے دیکھتے ہیں، تو دل کانپتا ہے:
کیا ہم نے ان کا حق ادا کیا؟
کیا ہم نے ان کی زندگیوں سے سیکھا؟
کیا ہم نے ان کے مشن کو اپنا مشن بنایا؟
اگر نہیں، تو ان کی موت پر آنکھ نم کرنا کافی نہیں۔
خود کو جھنجھوڑنا ہو گا، ازسرِ نو سوچنا ہو گا، اور تجدیدِ عہد کرنا ہو گا۔
ہم نے پڑھا کہ امام احمد بن حنبلؒ کو جب قید میں ڈالا گیا، تو امت نے ان کی استقامت سے حوصلہ لیا۔
ہم نے جانا کہ امام ابن تیمیہؒ کی رحلت کے بعد بھی ان کا فکر زندہ رہا۔
ہم نے دیکھا کہ علامہ احسان الہی ظہیرؒ کی شہادت نے ایک نسل کو بیدار کر دیا۔
تو آج اگر مکیؒ، ساجد میرؒ، اور دیگر اساتذہ و مشائخ رخصت ہو چکے ہیں، تو سوال یہ نہیں کہ وہ کہاں چلے گئے۔۔۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے ان کے جانے کے بعد کیا پایا؟
اہل علم کی رحلت دراصل امت کے دل سے نبضِ علم کے رکنے جیسی ہے۔
یہ لمحہ ماتم کا ہے، مگر زیادہ اس سے، ایک صدا ہے۔ بیداری کی صدا۔
جو سوئے ہیں، وہ جاگ جائیں۔
جو جاگے ہیں، وہ اٹھ کھڑے ہوں۔
اور جو اٹھے ہیں، وہ تھام لیں علم کا وہ پرچم جو گرتے گرتے کسی وارث کو ڈھونڈ رہا ہے۔
یاد رکھیں کہ علم صرف کتب سے نہیں منتقل ہوتا، علم اہل علم کے وجود، کردار، اور قربانی سے جیتا ہے۔
پس آج ہم پر فرض ہے کہ ان اکابرین کے مشن کو حرف بہ حرف، عمل بہ عمل، اور جذبہ بہ جذبہ زندہ کریں۔ یہی ان کے ساتھ وفا ہو گی۔ یہی ہماری نجات کی بنیاد بنے گی۔
*طلباء علم کے فرائض علم کے ورثاء کون؟*
کبھی ہم نے غور کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
العلماء ورثة الأنبياء
“علماء انبیاء کے وارث ہیں”
تو کیا ہمیں معلوم ہے کہ یہ وراثت محض الفاظ کی نہیں، فکر، عمل، قربانی، اور سچائی کی وراثت ہے؟
اور جو وارث بننا چاہے، اُسے میراث کے قابل بھی ہونا پڑتا ہے۔
آج ہم اپنے اکابرین کو رخصت ہوتے دیکھ رہے ہیں، تو سوال یہ نہیں کہ وہ کتنے تھے سوال یہ ہے کہ ہم کیا ہیں؟
اگر 101 سے زائد علمائے کرام رخصت ہو گئے،تو 101 سے زائد ایسے طلباء کہاں ہیں۔
جنہوں نے اپنے سینوں میں وہ تڑپ، وہ فکر، اور وہ اخلاص بسا لیا ہو؟ جو ان کی کتابوں کو کھول کر صرف حواشی نہ دیکھیں بلکہ دل سے پکاریں:
“میں اپنے اسلاف کا وارث بنوں گا!”
علم کو زبانی جمع خرچ سمجھنے والوں سے نہیں،
علم کو عمل کی چنگاری میں بدلنے والوں سے امت کو امید ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صرف حفظ، صرف سند، صرف فضیلت کافی نہیں،
امام مالکؒ سے کسی نے پوچھا:
“علم کیسے حاصل ہو؟”
فرمایا: “بصبر کثیر و حرص شدید و فہم ثاقب و مال طیب”
تو اگر تم صبر، حرص، فہم اور پاکیزہ نیت سے محروم ہو،
تو تم وارث نہیں، محض نقال ہو۔
طلباء علم سے گزارش ہے۔
جب تُو فجر کی تاریکی میں اٹھتا ہے،
تو سوچ کیا تُو صرف سبق دہرانے جا رہا ہے؟
یا علم کی روشنی کو آگے بڑھانے؟
کیا تیرا مقصد سند لینا ہے، یا پیغامِ نبوی کو دنیا تک پہنچانا؟
کیا تُو ان جیسا بننا چاہتا ہے جنہیں تُو سلام کرتا ہے؟
اگر ہاں، تو تیرا دن، رات، بول، چال، انداز، سجدہ، مطالعہ سب کچھ اُن کے طرز کا ہونا چاہیے۔
یہ وقت ہے کہ ہر طالب علم اپنا محاسبہ کرے۔
کیا تُو مسجد کا چراغ ہے یا بازار کا سوداگر؟
کیا تُو وقت کا وارث ہے یا وقت کا ضیاع؟
کیا تُو امت کا درد رکھتا ہے یا صرف اپنا وظیفہ؟
اپنے اساتذہ کی صحبت کو نعمت جانیں، کتابوں سے عشق کریں، دعاؤں میں علم مانگیں، اور عمل میں حق کو پیش نظر رکھیں۔
امام شافعیؒ کہتے تھے:
“میں نے جب بھی سیکھا، تو دل کے دروازے پر ادب کی زنجیر لٹکائی”
اگر آپ میں ادب نہ ہو،
تو علم آپ کے اندر روشنی نہیں، غرور بن کر اُترے گا۔
یاد رکھیں کہ
آج کا طالب علم کل کا قائد ہے۔
آج کا محنتی طالب علم کل کا محقق و خطیب ہے۔
آج کا غافل طالب علم کل امت کا سب سے بڑا خسارہ ہے۔
مجھ سمیت سب وارثان علم سے دردمندانہ اپیل ہے کہ
اٹھیں جاگیں، سنبھلیں اور عہد کریں کہ ہم اُن 101 سے زائد رخصت ہونے والے علماء کا خلا اپنے عمل، علم اور اخلاص سے پُر کریں گے۔
ورنہ کل قیامت کے دن وہ تم سے پوچھیں گے:
ہم نے آپ کو وراثت دی، آپ نے کیا کیا؟
قسط (دوئم)
*مدارس کی موجودہ و متوقع ذمہ داریاں:*
مدرسہ ایک ایسا لفظ جس نے صدیوں تک اُمت کو جمود سے نکال کر بیداری دی، جس کی چٹائیوں سے نکلنے والے طلبہ نے تخت ہلا دیے، جس کے اساتذہ نے چراغ بن کر اندھیروں کو شکست دی۔
مگر آج جب ہم مدارس کی عمارتوں کو تو وسیع دیکھتے ہیں، لیکن اُن میں سے نکلنے والے افراد کو دنیا کی قیادت سے خالی پاتے ہیں، تو سوال اُٹھتا ہے: کیا مدرسہ آج بھی وہی روح رکھتا ہے؟
اگر اکابرین کے جانے کے بعد کوئی مضبوط قلعہ باقی ہے، تو وہ یہی دینی مدارس ہیں۔
مگر اگر یہ قلعے محض رسمی ادارے بن جائیں، تو پھر فکر و دین کا دفاع کس سے ہوگا؟
پھر علم کا تسلسل کہاں سے آئے گا؟
پھر مساجد میں وہ خطیب کہاں ہوں گے جن کی زبان سے امت کا دل دھڑکے؟
پھر کفر و الحاد کا مقابلہ کون کرے گا؟
مدرسے کی عمارت نہیں اُس کا نظریہ اصل طاقت ہے۔
یہی نظریہ امام دارالہجرہ امام مالکؒ کا تھا،
یہی جذبہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کا تھا،
یہی اخلاص شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا تھا،
اور یہی روشنی علامہ بدیع الدین شاہ راشدیؒ، علامہ احسان الہی ظہیرؒ اور مولانا عبد الرحمٰن مکیؒ رحمہم اللہ کے اندر چمکتی تھی۔
میرے خیال میں مدرسہ وہ ہونا چاہیے، جہاں سکھایا جائے کہ قرآن صرف حفظ نہیں، رہنمائی ہے۔
جہاں حدیث محض نقل نہیں، فہم اور عمل کا راستہ بتایا جائے۔
جہاں استاد صرف نصاب کا شارح نہیں، کردار کا معلم بھی ہو۔
جہاں طالب علم صرف کامیابی کا طالب نہیں، ذمہ داری کا حامل ہو۔ آج مدرسہ کی بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ زمانے کو سمجھے:
الحاد کے چیلنجز کو پہچانے، میڈیا کی یلغار کا جواب دینے والے مبلغ پیدا کرے، مدارس کو فکری تنہائی سے نکال کر اجتماعی شعور سے جوڑے۔
طلباء کو عصری زبان میں دین کا مقدمہ لڑنے کے قابل بنائے، اگر مدرسہ طلبہ کو صرف درسی کتب اور روایتی اسباق میں محدود رکھے گا، تو وہ عالم تو شاید بن جائیں گے، لیکن وقت کے معرکے میں سپاہی نہیں ہوں گے۔
مدرسہ صرف ایک ادارہ نہیں، یہ وہی “صفہ” ہے جہاں سے امت کی فکری قیادت نے جنم لیا تھا۔
اس لیے اب مدارس کو چاہیے کہ:
نصاب کی تجدید کریں مگر بنیاد کو برقرار رکھیں۔
اساتذہ کو تربیت دیں کہ وہ ماضی کے ساتھ حال کو جوڑیں۔
طلاب کو فکرِ امت، زبانِ حکمت، اور سلیقۂ دعوت سکھائیں۔
طالب علم کو داعی، مفکر، اور عملی انسان بنا کر نکالیں
*جماعتی نظم و قیادت کا خلا:*
قافلہ اگر بغیر سالار ہو تو راہیں کٹتی نہیں، کشتی اگر ناخدا سے خالی ہو تو موجوں سے لڑتی نہیں اور جماعت اگر قیادت سے محروم ہو جائے، تو منزلیں دھند میں گم ہو جاتی ہیں۔
آج ہم ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں ہمارے اکابر، ہمارے قائد، اور ہمارے فکری امام ایک ایک کر کے رخصت ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر عبد الرحمان مکیؒ جیسی علمی و روحانی قد آور شخصیت، علامہ ساجد میرؒ جیسے جماعتی نظم کے ستون، ان کے جانے سے نہ صرف علمی خلا پیدا ہوا، بلکہ قیادت کا بحران بھی سر اٹھا چکا ہے۔
یہ خلا صرف ایک فرد کا نہیں،
بلکہ ایک نظام، ایک وژن، اور ایک رُخ کا ہے۔
جماعتیں اب دو راہوں پر کھڑی ہیں:
یا تو وہ وراثت کو صرف برائے نام سنبھالیں، یا پھر اس فکری و تنظیمی خلا کو حکمت و اخلاص سے پُر کریں۔
قیادت صرف کرسی کا نام نہیں، کردار کا نام ہے۔ قیادت صرف فیصلے کا حق نہیں، دھڑکنوں کا بوجھ اُٹھانے کی صلاحیت ہے۔
تاریخ اوراق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں جب خلافت کا بار اُن پر آیا،
تو وہ لرز گئے، آنکھیں نم ہو گئیں،
اور فرمایا:
“مجھے امت کے ہر غریب، بھوکے، مظلوم، اور بے نوا کا حساب دینا ہو گا”
یہ ہوتی ہے قیادت جو صرف جھنڈا نہیں اٹھاتی،بلکہ امت کی چیخیں سنتی ہے۔
آج جماعتی نظم کو چاہیے کہ:
قیادت کے انتخاب میں اخلاص، تقویٰ، اور علم کو معیار بنائے، شخصیت پرستی سے نکل کر مشاورت اور اجتماعیت کو فروغ دیں۔
اور اپنی صفوں میں نوجوان قیادت کو تربیت دے، مواقع دے،اختلاف کو افتراق نہ بنائے بلکہ وسعتِ ظرف سے برداشت کرنے کی عادت اپنائے یہی اسلاف کا عمل رہا ہے۔
جماعتی نظم کو خدمت، اخلاص اور علم کی بنیاد پر استوار کرے، نہ کہ سیاست، مقبولیت اور مفادات پر،کیونکہ اگر قیادت کا خلا باقی رہا،تو فتنہ اس خلا کو پُر کر دے گا۔
اور فتنہ جب قیادت سنبھالتا ہے، تو پھر امت تباہی کے گڑھے میں گر جاتی ہے۔
یاد رہے کہ قیادت وہی ہے جو سیرتِ نبوی کا آئینہ ہو،رحمۃ للعالمین کا انداز،صداقتِ صدیقؓ کی گہرائی، عدلِ فاروقؓ کی تلوار، علمِ علیؓ کی روشنی، اور حیا و حلمِ عثمانؓ کا وقار اُس میں جھلکتا ہو۔
آج اگر ہم قیادت کے باب میں مخلص، باشعور، اور علم دوست افراد تیار نہ کر سکے،تو جماعت صرف ہجوم رہے گی کارواں نہیں بنے گی۔
قسط (سوئم)
*فکری محاذ پر دعوت کا تقاضا:*
جب دنیا فکری ارتداد کے دریا میں بہہ رہی ہو، جب عقل پرستی، الحاد، مادیت، سیکولرزم، لبرلزم، اور خواہش پرستی دین کی قدروں کو نگلنے لگیں، تو دعوت صرف کتابیں پڑھانے، تقاریر کرنے یا جلسے منعقد کرنے کا نام نہیں رہتا، بلکہ دعوت محاذ بن جاتی ہے اور وہ بھی ایک فکری محاذ۔
یہ وہ میدان ہے جہاں ہتھیار قلم ہے، جہاں گولی دلیل ہے، جہاں قلعہ علم ہے اور جہاں سپاہی داعی ہوتا ہے۔
ہم نے اپنے اکابر سے سیکھا کہ دعوت صرف مسندِ خطابت نہیں، یہ عقلوں کو مخاطب کرنے، دلوں کو جیتنے اور وقت کے فتنوں کا علمی و فکری محاصرہ کرنے کا نام ہے۔
آج کے دور کا داعی وہ نہیں جو صرف کہے: “قال اللہ و قال الرسول”،
بلکہ وہ ہے جو سمجھے کہ
آج کے نوجوان کا ذہن کن سوالات سے بھرا ہے، کیا مغربی فلسفہ اس کے ایمان کو کھوکھلا کر رہا ہے، کیا سوشل میڈیا اس کی شخصیت کو بگاڑ رہا ہے، کیا تعلیمی نظام اس کے دین و فکر کو مٹا رہا ہے؟
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ دعوت اگر فکری سطح پر نہ ہو تو صرف شور رہ جاتا ہے، اثر نہیں۔
اور اگر داعی وقت کے تقاضوں کو نہ سمجھے،تو وہ فتنہ کو دیکھ کر بھی اندھا رہتا ہے۔
یہ وقت تقاضا کرتا ہے کہ:
ہم دین کو صرف روایتی انداز میں پیش نہ کریں، بلکہ عقلی، نفسیاتی اور فلسفیانہ انداز میں بھی دفاع کریں۔
ہم الحاد کا جواب صرف رد سے نہ دیں، بلکہ متبادل فکر پیش کریں۔
ہم نوجوانوں کو صرف شرعی احکام نہ بتائیں، بلکہ ان کی ذہن سازی کریں، دل میں یقین اُتاریں، اور عقل کو مطمئن کریں۔ ہم انگریزی، اردو اور سوشل میڈیا کی زبان میں اسلام کو مؤثر انداز میں پیش کریں۔
ہم صرف دفاعی انداز میں نہ رہیں، بلکہ اقدامی دعوت کے علمبردار بنیں۔
کیا ہم نے نہیں دیکھا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ نے فلسفہ و منطق کے زہر کا جواب کس فکری گہرائی سے دیا؟
کیا امام غزالیؒ نے باطل فلسفوں کو خود ان کی زبان میں شکست نہیں دی؟
کیا شاہ ولی اللہؒ نے برصغیر کے بگڑتے ہوئے فکر کو ازسر نو ترتیب نہیں دیا؟
پھر آج جب ہمارے سامنے وہی الحاد نئے لبادے میں ہے،تو ہم پر بھی لازم ہے کہ ہم پرانی دعوت کو نئے دلائل، نئے ذرائع اور نئے اسلوب سے زندہ کریں۔
منبر سے لے کر میڈیا تک، ہر جگہ داعی کو کھڑا ہونا ہو گا۔
ایسا داعی جو فکری، اخلاقی، علمی اور روحانی محاذ پر امت کی نمائندگی کر سکے۔
میری ناقص رائے کے مطابق اگر حق سست ہو جائے،تو باطل بہت تیز ہو جاتا ہے اور باطل صرف زور سے نہیں جیتتا،بلکہ اکثر سوئے ہوئے اہلِ حق کی خاموشی سے جیتتا ہے۔
*سلف صالحین کے طرزِ عمل سے رہنمائی:*
تاریخ کے طویل اندھیروں میں اگر کہیں روشنی کے مینار ابھرتے ہیں، تو وہ سلفِ صالحین کی زندگیاں ہیں۔
وہ لوگ جنہوں نے نہ صرف علم حاصل کیا، بلکہ عمل سے اس علم کو زندہ کیا۔ جنہوں نے کتابیں لکھی ہی نہیں، کردار بنے، جنہوں نے صرف فتویٰ نہیں دیا، فتنوں کے سامنے کھڑے ہوئے۔
آج جب ہم ایک فکری، علمی، جماعتی اور دعوتی خلا کا سامنا کر رہے ہیں، تو سب سے پہلی ضرورت ہے کہ ہم اُن ہستیوں کی طرف پلٹیں جو اس امت کے فکری معمار تھے۔
جن کے دل میں اخلاص، دماغ میں بصیرت، زبان پر حق اور قدموں میں استقامت تھی۔
امام احمد بن حنبلؒ کو دیکھیں،
کس طرح “خلقِ قرآن” کے فتنے میں ایک تنہا سپاہی کی طرح کھڑے ہوئے،نہ کوڑے تھکا سکے، نہ قید نے ہرا دیا،
اور فرمایا:
“میں تو حق سے رجوع نہیں کر سکتا، چاہے دنیا میرے خلاف ہو جائے۔”
یہ استقامت ہی تو وہ چراغ ہے،
جس نے صدیوں بعد بھی اہلِ حق کے دل گرمائے۔
امام المحدثین امام بخاریؒ کو دیکھیں،
جنہوں نے حدیث کی چھان بین میں پوری عمر لگا دی،تاکہ امت کو سنتِ رسول کی خالص روشنی ملے۔
آج ہم جب بخاری شریف پڑھتے ہیں، تو کیا ہم صرف روایت پڑھتے ہیں؟
نہیں۔ ہم ایک زندگی پڑھتے ہیں، جس میں اخلاص، محنت، تحقیق، قربانی، اور فہم کی روشنی ہے۔
اگر شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کو دیکھیں:
جنہوں نے صرف علم نہیں دیا،
باطل کے خلاف فکری محاذ پر قیادت کی۔ قید کی صعوبتیں، دشمنوں کی سازشیں، سب اُن کے ارادے کو نہ توڑ سکیں۔
ان کی تحریریں آج بھی مسلمانوں کے ذہنوں میں بیداری پیدا کرتی ہیں۔
برصغیر میں شاہ ولی اللہؒ کو دیکھیں:
جنہوں نے برصغیر کی ٹوٹی ہوئی فکری رگوں کو جوڑا، دین کے تعارف کو جدید ذوق و تقاضوں کے مطابق پیش کیا،
اور امت کو “قرآن فہمی”، “اصلاحِ امت”، “تجدیدِ فکر” اور “فہمِ حدیث” کا راستہ دکھایا۔
اور ہمارے قریبی اسلاف علامہ بدیع الدین شاہ راشدیؒ، حافظ محمد گوندلویؒ، شیخ الحدیث نذیر حسین دہلویؒ،
اور حال ہی میں ڈاکٹر عبد الرحمان مکیؒ، علامہ ساجد میرؒ (رحمہم اللہ )یہ سب صرف مفسر، محدث، فقیہ یا منتظم نہ تھے،
یہ دراصل نقشِ سلف تھے، جو امت کے جسم میں ایک تازہ روح پھونکتے رہے۔
اب سوال یہ ہے:
ہم ان کی زندگیوں سے کیا لے رہے ہیں؟
کیا صرف ان کے جنازے بڑے ہونے پر خوش ہیں؟ کیا صرف ان کی کتابیں حوالوں کے لیے رکھی ہیں؟
یا ان کی طرح فکر، علم، استقامت، اخلاص، اور قربانی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہے؟
سلف کا طریقہ، نصوص کے ساتھ شعور کا اور اخلاص کے ساتھ جدوجہد کا امتزاج تھا۔
یہی وہ راہ ہے جو آج کے عالم، طالب علم، داعی، مدرس اور قائد کو اختیار کرنی چاہیے۔
کیونکہ اگر سلف کی راہ سے ہٹ گئے،
تو نہ صرف راستہ گم ہو جائے گا،
بلکہ منزل کا تصور بھی ختم ہو جائے گا۔
#خیالات_ابن_الاعرابی
✍️ کامران الہی ظہیر