رسول اللہ ﷺنے اپنی امت کو علماء سے بغض رکھنے اور ان کی گستاخی کرنے سے منع فرمایا ہے آپ ﷺکا فرمان ہے کہ:
اغْدُ عَالِمًا أَوْ مُتَعَلِّمًا أَوْ مُسْتَمِعًا أَوْ مُحِبًّا وَلَا تَكُنِ الْخَامِسَ فَتَهْلِكَ (مسند البزار :3626 )
’’عالم ،متعلم،سامع یا علم سے محبت کرنے والے بنیں اگر اس کے علاوہ پانچویں بنیں گے تو ہلاک ہوجائیں گے۔‘‘
امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
الوقيعة في اھل العلم ولا سيما اکابرھم من کبائر الذنوب .
اہل علم کی مذمت و توہین کرنا ، خاص طور سے بڑے علماء کرام کی ، کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔( الرد الوافر لابن ناصر الدين الدمشقي : 283 )
ایسے لوگوں کی زندگی باری تعالی تنگ کردیتا ہے اور انہیں ذلیل رسوا کرتا ہے جو لوگ علماء کرام پر تبرا بازی و الزام تراشی کیا کرتے ہیں جیسا کہ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو معزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریمﷺ ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا، اس میں کوتاہی نہیں کرتا عشاء کی نماز پڑھاتا تو اس کی دو پہلی رکعات میں (قراءت ) لمبی کرتا اور دوسری دو رکعتیں ہلکی پڑھاتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اے ابواسحاق! مجھ کو تم سے امید بھی یہی تھی۔ پھر آپ نے سعد رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک یا کئی آدمیوں کو کوفہ بھیجا۔ قاصد نے ہر ہر مسجد میں جا کر ان کے متعلق پوچھا۔ سب نے آپ کی تعریف کی لیکن جب مسجد بنی عبس میں گئے۔ تو ایک شخص جس کا نام اسامہ بن قتادہ اور کنیت ابوسعدہ تھی کھڑا ہوا۔ اس نے کہا کہ جب آپ نے اللہ کا واسطہ دے کر پوچھا ہے تو ( سنیے کہ ) سعد نہ فوج کے ساتھ خود جہاد کرتے تھے، نہ مال غنیمت کی تقسیم صحیح کرتے تھے اور نہ فیصلے میں عدل و انصاف کرتے تھے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے ( یہ سن کر ) فرمایا کہ اللہ کی قسم میں ( تمہاری اس بات پر ) تین دعائیں کرتا ہوں۔ اے اللہ! اگر تیرا یہ بندہ جھوٹا ہے اور صرف ریا و نمود کے لیے کھڑا ہوا ہے تو اس کی عمردراز کر اور اسے خوب محتاج بنا اور اسے فتنوں میں مبتلا کر۔ اس کے بعد ( وہ شخص اس درجہ بدحال ہوا کہ ) جب اس سے پوچھا جاتا تو کہتا کہ ایک بوڑھا اور پریشان حال ہوں مجھے سعد رضی اللہ عنہ کی بددعا لگ گئی۔ عبدالملک نے بیان کیا کہ میں نے اسے دیکھا اس کی بھنویں بڑھاپے کی وجہ سے آنکھوں پر آ گئی تھی۔ لیکن اب بھی راستوں میں وہ لڑکیوں کو چھیڑتاتھا۔ (صحیح البخاری:755)
صحابه كرام رضي الله عنهم کے زمانہ میں بھی ایسے شقی لوگ موجود تھے جو علماء کرام کی گستاخی وتبرأ بازی کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے افرادکو دنیا میں ہی ذلیل ورسوا کرکے تمام آنے والی نسلوں کے لیے نشان عبرت بنادیا۔
اور اسی طرح محمد بن علی طوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
خالد بن خداش نے میرے والد کو ایک خط کے ذریعے اس دن کے واقعے کی خبر دی ، جس دن امام احمد کو درے مارے گئے تھے ، یہ سن کر ایک شخص شکرانے کی نماز پڑھنے مسجد گیا تو اللہ تعالی نے اسے سینے تک زمین میں دھنسا دیا ، اس کی چیخ پکار پر لوگ جمع ہوئے تو اسے کھینچ کر باہر نکالا ۔ (مناقب احمد : 654 )
اور اللہ عزوجل ان لوگوں کو دنیا میں عبرت کا نشانہ بناتا ہے جو لوگ علماء کرام کی بے آبرو کرتے ہیں۔ عمران بن موسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
میں ابو العروق کے پاس گیا ، یہ وہ شخص تھا جس نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو کوڑے مارے تھے ، میں نے دیکھا کہ وہ پینتالیس دن تک کتے کی طرح بھونکتے بھونکتے مرگیا ۔( مناقب احمد : 424 )
گوجرانوالہ، شیخوپورہ، لاہور، فیصل آباد ، کراچی وغیرہ میں گذشتہ دس سالہ سوشل میڈیائی زندگی میں اوپر بیان کردہ نصوص اور اثار کو سچ پایا میں ان لوگوں کے ناموں سے اپنی وال کو آلودہ نہیں کرنا چاہتا حالانکہ ان میں سے بعض کے نام بہت خوبصورت ہیں لیکن انہیں اس امر کا احساس نہیں کہ ان کے شب و روز کس قدر معیوب اور شیطانی عمل میں گزر رہے ہیں۔ علماء کا گستاخ عبرت کا نشان بنتا ہے، علماء معصوم عن الخطا نہیں ہیں ان سے غلطی کا ہونا ممکن ہے ان کا کوئی بھی موقف غلط ہو سکتا ہے لیکن اس غلطی یا موقف میں غلطی کی بنیاد پر ان پر طعن زنی کرنا اور بازاری انداز میں اس کا ذکر کرنا ،،،، انا للہ وانا الیہ راجعون، استغفر اللہ۔

فیض الابرار صدیقی