علماء اس روئے زمین کی زینت اور تاریکی میں لوگوں کے لئے مشعل ہدایت ہیں، ان کی مثال ان ستاروں کی طرح ہے جن کی روشنی سے لوگ بحر و بر کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتےہیں:

“يجب على المسلمين بعد موالاة الله ورسوله: موالاةُ المؤمنين كما نطق به القرآن؛ خصوصًا العلماء الذين هم ورثة الأنبياء، الذين جعلهم الله بمنزلة النجوم يُهتدى بهم في ظلمات البر والبحر، وقد أجمع المسلمون على هدايتهم ودرايتهم؛ إذ كل أمة قبل مبعث محمد صلى الله عليه وسلم فعلماؤها شرارها إلا المسلمين فإن علماءهم خيارهم؛ فإنهم خلفاء الرسول في أمته، والمحيون لما مات من سنته، بهم قام الكتاب، وبه قاموا، وبهم نطق الكتاب وبه نطقوا”.

مجموع الفتاوى (20/ 231-232)

مسلمانوں پر اللہ اور اس کے رسول سے محبت کے بعد اہل ایمان سے محبت ودوستی واجب ہے، جیسا کہ قرآن کا فرمان ہے، خاص طور پر علماء سے محبت وموالات جو انبیاء کے وارث ہیں؛ جنہیں اللہ تعالی نے ان ستاروں کی مانند بنایا ہے جن کی روشنی سے بحر وبر کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ نیز علماء کی ہدایت اور علم ومعرفت پر مسلمانوں کا اتفاق ہے- محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہر امت کے بدترین لوگ اس کے علماء ہوا کرتے تھے، لیکن مسلمانوں میں سب بہتر ان میں علماء کا طبقہ ہے؛ کیونکہ وہ رسول کے جانشین ہوتے ہیں اور اس کی مردہ سنتوں کو زندہ کرتے ہیں، قرآن ان سے اور وہ قرآن کی بدولت قائم ودائم ہیں، وہ قرآن کی عظمت وصداقت اور قرآن ان کی عظمت وصداقت پر شاہد عدل ہے۔
علماء کو یہ مقام درج ذیل بنیادوں پر حاصل ہے:
1- علماء انبیاء کے جانشین اور وارث ہیں، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔ [دیکھیں: سنن ابو داود (3641)، مسند احمد (21715)]۔
2- یہ امت کے اہل حل وعقد ہیں ۔
ارشادِ بارى تعالى ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ، وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ، وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ۔

[النساء:59]

اس آیت میں اللہ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اولو الامر (با اختیار طبقے) کی اطاعت کا حکم دیاگیاہےاور اولو الامر میں علماء اور امراء وحکام دونوں داخل ہیں۔

[تفسیر ابن کثیر (2/345)]۔
3- اللہ تعالى نے جہالت و لاعلمى کى حالت میں لوگوں کو اہل ذکر کى طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد بارى تعالى ہے:

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔

[النحل :43]
اور اہل ذکر سے مراد اہل علم ہیں۔
شیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس آیت میں اہل علم کى مدح ہے؛ کیونکہ اللہ تعالى نے نہ جاننے والوں کو ان کى طرف رجوع کرنے کا حکم دیا ہے جو ان کے ثقہ اور قابل اعتبار ہونے کى دلیل ہے اور اس بات کی بھی دلیل ہے کہ اللہ تعالى نے انہیں اپنے نازل کردہ وحى یعنی قرآن مجید کا امین بنایا ہے۔ (تیسیر الکریم الرحمٰن، ص: 441)۔
4- اللہ تعالى نے اہل علم کو اپنى وحدانیت پر گواہ بنایا ہے۔ ارشاد ربانى ہے:

شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلْمِ

[آل عمران: 18]

اللہ تعالى، فرشتے اور اہل علم اس بات کى گواہى دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئى معبود (برحق ) نہیں۔
اس آیت کریمہ سے اہل علم کى فضیلت اور عظمت کا پتہ چلتا ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالى نے انسانوں میں سے خصوصى طور پر صرف علماء ہى کو اپنى توحيد پر گواہ بنایا ہے اور ان کى گواہى کو خود اپنی اور اپنے فرشتوں کى گواہى کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ نیز توحید جیسی عظیم شیء پر گواہ بنانے سے علماء کى عدالت وثقاہت کا پتہ چلتا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ تعالى نے توحید کى امانت جو ان کے سینوں میں ودیعت کر رکھى ہے اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دینےکى جو ذمہ دارى ان کے سپرد کى ہے، وہى اس کے حقیقى اہل ہیں اور زمیں پر اللہ کے بندوں کے لئے حجت اور مرجعیت کى حیثیت رکھتے ہیں۔
5- نبى صلى اللہ علیہ وسلم کا راستہ بصیرت کے ساتھ اللہ کى طرف دعوت دینا ہے اور یہى ان کے متبعین کا بھى راستہ ہے۔ اللہ تعالى کا ارشاد ہے:

قُلْ هَٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي

[یوسف:18]

اور یہ بصیرت جوعلم ویقین سے عبارت ہے؛ علماء کے یہاں دیگر لوگوں کے بالمقابل بدرجہ اتم موجودہے۔
لہذا علماء ہی امت کے حقیقی رہنما ہیں اور امت کے دیگر افراد ان کے تابع ہیں۔ اس لئے لوگوں کو چاہیئے کہ وہ علما سے جڑیں اور ان کی دینی مرجعیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنےدینی، دعوتی اور علمی مسائل کے حل کے لئے علماء ہی سے رابطہ کریں۔
آج علماء کى مرجعیت اور ان کی قائدانہ حیثیت سے امت کی غفلت کا نتیجہ ہے کہ جاہل اور نا اہل دین کے رہنما بن بیٹھے ہیں، دعوت وافتاء کو بازیچہ اطفال سمجھ لیا گیا ہے، بہت سارے احداث الأسنان اور سفہاء الأحلام امت کے معرکۃ الآراء مسائل میں رائے زنى کرنے کو اپنا واجبی حق تصور کرنے لگے ہیں، جس کے تباہ کن نتائج سے دینی وعلمی غیرت کا حامل ہر باشعور انسان شکوہ کناں ہے۔
علماء راسخین سے دوری اور چند مخصوص رنگ کى فکرى وثقافتى کتابوں اور سطحى لٹریچر کو مرجع بنا لینے کے نتیجے میں کچھ ایسے دعوتى افکار ونظریات ابھر کر سامنے آئے جن میں عقیدہ ومنہج سلف اور پیغمبرانہ اسلوبِ دعوت کو نظر انداز کر دیا گیا اور بظاہر چند خوشنما نعروں کى آڑ میں ان افکار و نظریات کا صور ایسى بلند آہنگى کے ساتھ پھونکا گیا کہ کم علم اور محدود مطالعہ کے حامل لوگ اس سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ جس کے نتیجے میں علم وبصیرت سے عاری ایک ایسا ناعاقبت اندیش گروہ رونما ہوا جس نے امت میں خارجیت زدہ ذہنیت کو فروغ دینے میں بڑا کردار ادا کیا؛ جس کی فتنہ سامانیوں اور ہلاکت خیزیوں سے امت تاہنوز جونجھ رہی ہے۔
بعض گمراہ فرقوں کى تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کى گمراہى کى ایک بڑى وجہ یہ تھى کہ ان کے سرغنہ اور دعاۃ کوئى بڑے عالم نہ تھے، بلکہ علم اور تفقہ فی الدین میں بڑے کوتاہ دست تھے، جس کے نتیجے میں وہ بھیانک شبہات کے شکار ہوئے اور جادّہ حق سے منحرف ہو گئے-
بطور مثال خوارج کو دیکھ لیں کہ کس طرح وہ قرآن کی بعض آیتوں کا غلط مفہوم نکال کر گمراہی کے شکار ہوئے اور حضرت على رضی اللہ عنہ کے خلاف اپنا ایک مسلح جتھا بنا لیا ۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ انہوں نے صحابہ سے قرآن سمجھنے کی کوشش نہیں کی، وہ قرآن پڑھتے تو تھے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

يقرؤون القرآن لا يجاوز حناجرهم ۔

(متفق علیہ)
اہل علم نےاس حدیث کا ایک مطلب یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کےمعانی ومطالب ان کے پلے نہیں پڑتے تھے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

“المعنى أنهم لا يفهمون ما فيه ولا يعرفون مضمونه”.

كشف المشكل من حديث الصحيحين (3/ 47)
یہی وجہ ہے کہ جب عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کتاب وسنت کے نصوص کى روشنى میں ان کے شبہات کا ازالہ کیا تو ان کی اکثریت اپنی گمراہی سے تائب ہو گئی، جیسا کہ مصنف عبد الرزاق (18678) میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
لہذا گمراہی اور فتنوں سے بچنے کے لئے کتاب وسنت کا صحیح اور ٹھوس علم رکھنے والے علماء کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے، ہرکس و ناکس کو عالم کا درجہ دینا پھر اس سے ہر چھوٹے بڑے مسئلے میں فتوی یا رہنمائی طلب کرنا انتہائی سنگین امر ہے۔
اپنے زمانے میں مدینہ کے مفتی ربيعة الرأي -رحمہ اللہ- کے پاس ایک شخص آیا تو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں، یہ منظر دیکھ کر وہ آدمی گھبرا گیا اور کہنے لگا کہ کیا آپ پر کوئی مصیبت آن پڑی ہے؟ ربیعہ نے کہا : نہیں، بات در اصل یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے فتوی پوچھا جانے لگا ہے جن کے پاس علم نہیں، یہ اسلام میں ایک سنگین معاملہ درپیش آ گیا ہے۔ (الفقيه والمتفقه للخطيب البغدادي (2/ 324)۔
اور یہ حقیقت ہے کہ اگر دعوت وافتاء کی باگ ڈور شرعی علوم سے نابلد و ناآشنا ہاتھوں میں ہوگی تو اس کا نتیجہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

“إن الله لا يقبض العلم انتزاعًا ينتزعه من العباد، ولكن يقبض العلم بقبض العلماء، حتى إذا لم يُبْقِ عالما اتخذ الناس رءوسا جهالا، فسئلوا فأفتوا بغير علم، فضلوا وأضلّوا”۔

اللہ تعالى علم کو بندوں کے سینوں سے نہیں اٹھائے گا، بلکہ علماء کو موت دے کر اٹھائے گا، یہاں تک کہ جب کوئى عالم باقى نہیں رہ جائے گا تو لوگ جہلاء کو اپنا سربراہ بنا لیں گے اور ان سے فتوے پوچھیں گے اور وہ بلاعلم فتوى دیں گے جس کے نتیجے میں خود بھى گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھى گمراہ کریں گے۔ (صحیح بخارى: 100)۔
لہذا ایسے نا اہل لوگوں پر قدغن لگانا اور لوگوں کو ان کے شر سے محفوظ رکھنا ایک اہم دینی وملی فریضہ ہے، نیز اس سلسلے میں عوام الناس کی ذہن سازی اور صحیح سمت کی طرف ان کارخ موڑنا بھی وقت کا اہم تقاضہ ہے، لہذا اس جانب زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے، واللہ الموفق۔

 جمیل احمد ضمیر