علماء کو چھوڑ کر کتابوں سے علم حاصل کرنا
بعض طالب علموں کا یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ علماء کی طرف رجوع کئے بغیر صرف کتابوں سے علم حاصل کر سکتے ہیں گرچہ کسی عبارت کی توضیح کرنا ہو یا اس کی مشکلات کو حل کرنا یا اس سے مسائل مستنبط کرنا ہو.
حالانکہ علم حاصل کرنے میں خود کو کسی عالم سے بے نیاز سمجھنا ایک ایسی دائمی بیماری ہے جس کا مریض علم اور اہل علم سے ہمیشہ کے لئے دور کر دیا جاتا ہے، جس کی غلطیاں کثرت سے ہوتی ہیں اور جو علم کی حقیقی چاشنی سے محروم کر دیا جاتا ہے.
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں “جس نے صرف کتابوں سے فقاہت حاصل کرنے کی کوشش کی اس نے در اصل اس کے احکام کو ضائع کردیا”. (تذکرۃ السامع والمتکلم. ص 87)
بعض سلف یہ کہا کرتے تھے کہ “بڑی مصیبتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کتابوں کو اپنا استاد بنا لے”.(تذکرۃ السامع والمتکلم. ص 87)۔یعنی عالموں سے قطع تعلق کرکے صرف کتابوں سے علم حاصل کرے.
فقیہ سلیمان بن موسی نے فرمایا “سلف کہا کرتے تھے کہ قرآن کا علم ایسے شخص سے نہ لو جس نے استاد سے قرآن نہ سیکھا ہو اور نا ہی ایسے شخص سے علم حاصل کرو جس کے علم کا دارومدار صرف کتابوں پر ہے”. (تصحیفات المحدثین للعسکری ج 1 ص 7)
ایک پرانی کہاوت ہے، سلف کہا کرتے تھے “من کان شیخہ کتابہ کان خطؤہ اکثر من صوابہ” یعنی جس نے کتاب کو اپنا استاد بنایا اس کی غلطیاں کثرت سے ہوگی”.
ابو حیان النحوی(صاحب تفسیر بحر المحیط) کا یہ اشعار اس سلسلے میں قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے کہا:
لا علمی کی وجہ سے کسی کو ایسا لگ سکتا ہے کہ سمجھدار انسان محض کتابیں پڑھ کر علم حاصل کرتا ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ کتابوں میں ایسی ایسی باریکیاں ہوتی ہیں جو صاحب فہم کی عقل کو بھی حیران کر دیتی ہیں۔
اسی لیے اگر تم کسی استاذ کی رہنمائی کے بغیر ہی علم ومعرفت پانے کی کوشش کروگے تو گمراہ ہو جاؤگے اور مسائل تمہارے سامنے ایسے گنجلک ہو جائیں گے کہ تم حکیم *”توما”* سے بھی زیادہ جاہل بن جاؤگے- ( حلیۃ طالب العلم ص 161)
(توما ایک شخص تھاجس کے حکیم باپ نے ترکہ میں چند طب کی کتابیں چھوڑی تھیں جسے پڑھ کر اس کا بیٹا خود کو ایک حکیم سمجھنے لگا، کسی بیماری کی دوا میں اس نے حبۃ السوداء (منگریلا) کو حیۃ السوداء (کالا سانپ) پڑھا، جس کے نتیجے میں اس نے علاج کرنے کے لئے سانپ کا زہر استعمال کیا اور ایک شخص کو اپنی جہالت سے قتل کر دیا.)
علماء ان باتوں کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں” طالب علموں کے لئے لازم ہے کہ وہ علم حاصل کرنے میں علماء کی صحبت اختیار کریں”.
ابن بطلان رحمہ اللہ اس سلسلے میں فرماتے ہیں “کتابوں میں کچھ چیزیں ایسی پائی جاتی ہیں جو طالب علموں کو علم سے بیزار کر دیتی ہیں اور حصول علم سے روک دیتی ہیں لیکن وہی چیزیں اساتذہ کے پاس پریشان کن نہیں ہوتیں. مثلا:لفظ میں اعراب کا ردوبدل ہونا جیسے. لفظ”بر” جس میں اعراب کے فرق سے اس کا معنی بدل جاتا ہے.
اسی طرح کبھی نگاہوں سے غلطیاں ہوجاتی ہیں یا کچھ طباعتی خرابیاں ہوں جو طالب علموں کے لئے دشوار کن ہو لیکن استاد کے لئے نہیں یا کچھ عبارتیں ایسی ہوتی ہیں جس کو اس کا صحیح حق ایک طالب علم بغیر اپنے استاد کی رہنمائی سے نہیں دے پاتا یا کبھی نقطے کے فرق سے معنی کا ردو بدل ہوجانا جیسے حبۃ السوداء والی مثال اسی طرح علامات الترقيم کو اس کی صحیح جگہ نہیں رکھنا جس سے معنی کا خلط ملط ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اسی طرح ایک ابتدائی طالب علم کا ایسی کتابوں کا پڑھنے کے لئے منتخب کرنا جو اس کے معیار سے اوپر ہے جس کی صحیح رہنمائی ایک استاد سے ہی ہو سکتی ہے، یہ وہ تمام خطرناکیاں اس شخص کو پیش آتی ہیں جس نے بغیر استاد کے اپنے مطالعے سے علم حاصل کرنا شروع کیا ہو.
امام ابن المبارک رحمہ اللہ کا اس سلسلے میں ایک بہترین جملہ گذر چکا جس میں انہوں نے علم حاصل کرنے کے مراحل بتائے تھے. آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ’’حصول علم کا پہلا مرحلہ نیت صالحہ ہے ،پھر اس علم کو استاد سے سننا ، پھر اس علم کو سمجھنا، پھر اس کو حفظ کرنا ،پھر اس پر عمل کرنا اور اس کا سب سے آخری مرحلہ ہے لوگوں میں اس کی نشر و اشاعت، وعظ و نصیحت اور تقاریر و خطاب کرنا‘‘۔ (جامع بیان العلم و فضلہ)
(منقول)