انبیاء دعوت و تبلیغ کے کام پر بیشک اجرت نہیں لیتے تھے، ان کا عام اصول یہی تھا کہ لا أسألكم عليه أجرا (میں تم سے دعوت دین کے کام پر کوئی اجرت نہیں مانگتا) لیکن جہاں بخیل و بد اخلاق قسم کے لوگ ملیں جو اہل فضل کے فضل کو نہ پہچانیں، جن کے لیے موسیٰ اور خضر جیسے نبیوں کا ایک وقت کا کھانا بھی بھاری ہو تو وہاں موسیٰ جیسے جلالی اور خوددار پیغمبر (یاد رہے یہ وہی موسیٰ ہیں جنہوں نے مدین میں دو انجان لڑکیوں کی مدد بلا کسی معاوضہ اجرت کے للہ فی اللہ کی تھی جب کہ وہاں وہ نہایت ضرورت مند بھی تھے) کو بھی خضر سے کہنا پڑتا ہے “لو شئت لاتخذت عليه أجرا” (آپ کو ان کنجوسوں کی دیوار درست کرنے کا کچھ معاوضہ ضرور لینا چاہیے تھا)

اسی طرح یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ دین کی تعلیم اور تبلیغ پر اجرت لینا قرآن اور دین کو بیچنا ہے۔ یہ بات بھی درست نہیں ہے۔ اللہ نے دین بیچنے والے جن افراد کا ذکر کیا ہے وہ لوگ ہیں جو دنیاوی مفادات کی خاطر حق سے اعراض کرتے ہیں یا حق کو چھپاتے ہیں۔ جتنے دین کے مدارس ہیں،اس میں جتنے بھی پڑھانے والے ہیں وہ وقت کے عوض مزدوری لیتے ہیں، اسی طرح مساجد میں  کام کرنے والے ہیں و ہ اپنے وقت کی اجرت لیتے ہیں نہ  کہ وہ قرآن اور حدیث کو بیچ کر یا اس کی تعلیم و تعلم کی  اجرت لیتے ہیں،  کیونکہ ان کی اجرت نہ کوئی دے سکتا ہے اور نہ کو ئی لے سکتا ہے۔  تو جو انہوں نے خود کو دین کے لیے  وقف کیا ہوا ہے وہ اپنی ضروریات پورا  کرنے کے لیے وقت کی اجرت لیتے ہیں۔

غرض علماء و دعاۃ کا جس زمانے میں استحصال ہو رہا ہو، ساری زندگی دین کے نام پر وقف کرنے والوں کا کوئی پرسان حال نہ ہو، بیس بیس سال ایک ادارے کو اپنے خون جگر سے سینچنے والے علماء کی لاک ڈاؤن میں تنخواہیں کاٹ لی گئی ہوں، جہاں ہفتہ بھر جگر سوزی کر کے جمعہ پڑھانے والے خطیب کو آمد و رفت کا کرایہ دینا بھی لوگوں پر گراں گزرتا ہو اس ماحول میں ایک عالم کو اپنے مطلوبہ وقت پر بلانے اور اس کا وقت طلب کرنے والے منتظمین سے ان کی حیثیت کے مطابق مطالبہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے، نہ شرعی اعتبار سے نہ اخلاقی اور انسانی اعتبار سے.

عبدالغفار سلفی ،بنارس