علماء و طلباء پر خرچ کرنا

ہمارے معاشرے میں لوگ بے شمار جگہوں پر خرچ کرتے ہیں، کبھی تقریبات پر، کبھی زیب و زینت پر، اور کبھی نمود و نمائش پر، لیکن جب بات دین کے لیے وقف طلباء و علماء کی ضروریات کی آتی ہے، تو دل و جیب دونوں بند ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہ وہی نفوسِ قدسیہ ہیں جو شب و روز علمِ دین کے حصول اور اس کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں۔
ان کی معاشی کفالت امت کی اجتماعی ذمے داری ہے ، یہ سب سے افضل مصرف ہے کہ ایسے اہلِ علم کی معاونت کی جائے جو خود کو دین کے لیے وقف کر چکے ہیں، اگر ہر فرد اپنے حصے کا بوجھ اٹھا لے، تو ان شاءاللہ یہ علماء و طلباء فکری و مالی پریشانیوں سے آزاد ہو کر دین کے مزید عظیم کام انجام دے سکیں گے۔
آئیے! اس بابرکت میدان میں قدم رکھیں، ان چراغوں کو بجھنے نہ دیں، بلکہ ان کی روشنی کو بڑھائیں، تاکہ معاشرہ علم، اخلاص اور دین داری سے منور ہو۔

(١) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَالِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ (١)

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فضیلۃ الشیخ عطاء اللہ ساجد رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مسجدوں کے میناروں اور دیواروں کی زیب و زینت کی بجائے علماء اور طلباء پر خرچ کرنا زیادہ ثواب ہے۔ اسی طرح مسجد کے مفلس یا مقروض نمازی اور مسجد کے قرب و جوار میں رہنے والے مدد کے مستحق غریب آدمیوں کو دینا زیادہ ضروری ہے۔ مسجد سادہ رہے تو افضل ہے۔
(٢) ایک عرب عالم دین بدر بن علی العتیبی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:

كان الإمام الشافعي ما يمسك شيئاً من المال لسماحته. وذات مرة أراد الخروج إلى مكة و معه مال، فقال بعض الناس: ينبغي أن تشتري بهذا المال ضيعة تكون لولدك من بعدك، فخرج ثم قدم، فسألوه ماذا صنع بالمال؟ ‏فقال: ما وجدت بمكة ضيعة يمكنني أن أشتريها، ولكن قد بنيت بمكة بيتاً يكون لأصحابنا ينزلون فيه إذا حجوا (٢)

«امام شافعی رحمہ اللہ بڑے فراخ دل اور فیاض شخص تھے، اسی وجہ سے ان کے پاس مال جمع نہیں رہتا تھا، ایک مرتبہ امام شافعی رحمہ اللہ نے مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ کیا اور اس وقت ان کے پاس کچھ رقم بھی تھی۔
کسی نے کہا: اس رقم کا بہتر مصرف یہ ہے کہ آپ بچوں کے لیے کوئی پلاٹ وغیرہ خرید کر رکھ دیں، امام شافعی مکہ تشریف لے گئے، اور جب واپس آئے تو ان سے پوچھا گیا: پھر آپ نے اس رقم کا کیا کیا ہے؟ فرمایا: مکہ جا کر مجھے کوئی ایسی زمین تو نہیں ملی جو خرید کر رکھ چھوڑوں، البتہ ان پیسوں سے مکہ میں میں نے ایک گھر بنوا کر وقف کر دیا ہے کہ جب ہمارے شاگرد حج پر جایا کریں گے تو وہاں رہائش رکھا کریں گے۔
(٣) سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا:

“إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ” (٣)

(۳) «انسان جب فوت ہو جاتا ہے تو تین صورتوں کے علاوہ اس کے سب عمل منقطع ہو جاتے ہیں ( اور وہ یہ ہیں ) جاری رہنے والا صدقہ، وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے»
ملاحظہ: اس حدیث کے تحت مسجد و مدرسہ کی تعمیر، علم پھیلانا، شاگرد بنانا اور کتاب تصنیف و تالیف کرنا یا اس کی اشاعت کرنا وقف کرنا از حد عمدہ کار خیر ہیں۔ (۳)
(٤) امام بخاری رحمہ اللّٰہ صدقہ بہت کرتے تھے حدیث کے طلبہ اور علما میں سے ضرورت مند کا ہاتھ پکڑ کر اس میں بیس یا تیس درہم رکھ دیتے کسی کو پتا نا چلنے دیتے درہم کا تھیلہ ہمیشہ ان کے ساتھ رہتا تھا ایک دفعہ میں (وراق ) نے انہیں دیکھا انہوں نے تھیلی ایک آدمی کو دی جس میں تین سو درہم تھے جیسا کہ اس آدمی نے بعد میں مجھے ان کی تعداد بتلائی اس آدمی نے ان کے لئے دعا کرنا چاہی تو انہوں نے اس سے کہا ٹھہرو اور ایک اور بات شروع کر دی تاکہ کسی کو پتا نہ چلے. الله أكبر(۴)
(۵) امام اہل السنّۃ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: کسی شخص کے پاس پانچ سو درہم ہوں تو اسے کہاں خرچ کرنا چاہیے؟ وہ جہاد و قتال فی سبیل اللہ میں اسے لگا دے یا ان دراہم کو خرچ کر کے علم حاصل کرے؟ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: میری رائے تو یہی ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور یہ بات مجھے زیادہ پسند بھی ہے۔ (۵)
ملاحظہ: یہاں سے معلوم ہوا ہے کہ اگر کسی کے پاس مال ہے تو وہ علم حاصل کرنے میں وہ مال لگا دے، اگر وہ خود علم حاصل نہیں کرتا ہے تو اس مال کو انویسٹ کرنے کا بہترین مصرف دین کے طلباء ہیں، کیونکہ وہ دینی تعلیم کے لیے وقف ہوتے ہیں، ان پر بے تحاشا مال خرچ کرکے خیر کثیر حاصل کر سکتا ہے۔
(۶) امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کو سرزنش کی گئی کہ آپ کیوں اتنا سارا مال دوسرے علاقوں میں طلبہ و علماء پر بانٹ دیتے ہیں؟
فرمایا: مجھے معلوم ہے کہ وہ لوگ کس قدر فضیلت اور اخلاص کے حامل ہیں۔ ان حضرات نے پہلے بڑی محنت سے علم حدیث حاصل کیا اور اب لوگ ان سے علم سیکھنے کے محتاج ہیں، جب کہ ان علماء کی اپنی اور ان کے بچوں کی بھی ضروریات ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان کو یوں ہی چھوڑ دیں گے تو (معاشی مشکلات کے سبب) ان کا علم ضائع ہو جائے گا۔ اور اگر ہم ان سے تعاون کریں گے تو یہ امت محمدیہ میں علم کی اشاعت کریں گے۔ اور میرے علم کے مطابق نبوت کے بعد علم سکھانے سے بڑا کوئی رتبہ نہیں ہے! (۶)
(٧) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:

“كَانَ أَخَوَانِ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ أَحَدُهُمَا يَأْتِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْآخَرُ يَحْتَرِفُ، ‏‏‏‏‏‏فَشَكَا الْمُحْتَرِفُ أَخَاهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِهِ” (٧)

«نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں دو بھائی تھے، ان میں ایک نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں رہتا تھا اور دوسرا محنت و مزدوری کرتا تھا، محنت و مزدوری کرنے والے نے ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ سے اپنے بھائی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا: شاید تجھے اسی کی وجہ سے روزی ملتی ہو»
ملاحظہ: محنت مزدوری کرنے والے نے یہ شکایت کی کہ یہ کمانے میں میرا تعاون نہیں کرتا اور میرے ساتھ کھاتا ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شکایت کرنے والے کی یہ فہمائش کی کہ وہ علم دین سیکھنے کے لیے میرے پاس رہتا ہے، اس لیے یہ سمجھو کہ تم کو جو تمہاری کمائی سے روزی ملتی ہے اس میں اس کی برکت بھی شامل ہے، اس لیے تم گھمنڈ میں مت مبتلا ہو جاؤ ، واضح رہے کہ دوسرا بھائی یونہی بیکار نہیں بیٹھا رہتا تھا، یا یونہی کام چوری نہیں کرتا تھا، علم دین کی تحصیل میں مشغول رہتا تھا، اس لیے اس حدیث سے بے کاری اور کام چوری کی دلیل نہیں نکالی جاسکتی، بلکہ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ اللہ کے راستہ میں لگنے والوں کی تائید اور معاونت دیگر اہل خانہ کیا کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) : [سنن ابن ماجه : ۴۲۰۹]
(٢) : [الحلية : ٩/ ١٢٧]
(۳) : [سنن ابي داود : ۲۸۸۰]
(۴) : [فتح السلام بشرح صحيح البخاري الإمام ص : ٦٦]
(۵) : [الآداب الشرعية ، لابن مفلح : ٤٣/۲]
(۶) : [سیر اعلام النبلاء : 387/8]
(٧) : [سنن الترمذي : ٢٣٤٥]

تحریر: افضل ظہیر جمالی

یہ بھی پڑھیں: جواہرات زبیریہ