’’علماء وطلباء کے آداب سے متعلق امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کے اَقوال‘‘

✿۔ «إِنَّ كَثِيرًا مِنْ عُلَمَائِكُمْ زِيُّهُ أَشْبَهُ بِزِيِّ كِسْرَى وَقَيْصَرٍ مِنْهُ لِمُحَمَّدٍ ﷺ إِنَّ مُحَمَّدًا لَمْ يَضَعْ لَبِنَةً عَلَى لَبِنَةٍ وَلَا قَصَبَةً عَلَى قَصَبَةٍ لَكِنْ رُفِعَ لَهُ عَلَمٌ فَسَمَوْا إِلَيْهِ».

’’تمہارے اکثر علماء کا طور طریقہ اور رہن سہن محمد کریم ﷺ سے زیادہ قیصر وکسری سے ملتا ہے۔ محمد کریم ﷺ نے تو کبھی اینٹ پر اینٹ اور بانس پر بانس نہیں رکھا(یعنی اپنے لیے اونچی عمارتیں تعمیر نہیں کی)، لیکن آپ ﷺ کا ذکر بلند ہوا تو یہ آپ کی طرف منسوب ہو گئے۔‘‘ (حلية الأولياء لأبي نعيم : ٨/ ٩٢ وسنده صحیح)

تعلیق : جب علماء، انبیاء کے وارث ہیں تو ان کی شکل وصورت، رہن سہن اور طور طریقہ بھی انبیاء جیسا ہونا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی دعوی تو میراثِ نبوت کے حاملین میں سے ہونے کا کرے لیکن چال ڈھال دنیا داروں یا انبیاء کے دشمنوں کی اَپنا لے۔
ہم اُس زمانے میں ہیں کہ جہاں علماء کو طعنہ ہی یہ دیا جاتا ہے کہ وہ دنیا دار اور زَر پرست لوگوں کی طرح عالیشان بنگلے اور مہنگی گاڑیاں کیوں نہیں رکھتے، ان کا رہن سہن اور چال ڈھال دنیاداروں سے کیوں نہیں ملتا۔ وغيرہ وغیرہ ۔
حالانکہ یہ دلوں کا معاملہ ہے، جس کا دل دنیا داروں کی طرح ہوگا، اس کا رہن سہن بھی اُن کی طرح ہوگا اور جس کا دل آخرت کے طلب گاروں جیسا ہوگا اس کی مشابہت بھی انہی سے ہوگی ۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ «لَا يُشْبِهُ الزِّيَّ الزِّيَّ حَتَّى تُشْبِهَ الْقُلُوبُ الْقُلُوبَ». ’’طور طریقے تبھی ایک جیسے ہوتے ہیں جب دل ایک جیسے ہوجائیں۔‘‘ (الزهد لهناد : ٢/ ٤٣٨ وفي سنده ضعف) اس کی اَصل قرآن مجید میں ہے کہ جب یہود ونصاری کی باتیں اپنے سے پہلے اہلِ کفر وضلال کے مشابہ ہوئیں تو فرمایا :

﴿ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ﴾.

’’ایسی ہی بات ان لوگوں نے بھی کہی تھی جو ان سے پہلے تھے۔ ان سب کے دل آپس میں ملتے جلتے ہیں۔‘‘ (سورة البقرة : ١١٨)

✿۔ «الْعُلَمَاءِ كَثِيرٌ وَالْحُكَمَاءُ قَلِيلٌ، وَإِنَّمَا يُرَادُ مِنَ الْعِلْمِ الْحِكْمَةَ فَمَنْ أُوتِيَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِي خَيْرًا كَثِيرًا».

’’علماء تو بہت ہیں لیکن حکماء تھوڑے ہیں، حالانکہ علم کا مقصد ہی حکمت حاصل کرنا ہوتا ہے، جسے حکمت دے دی گئی تو گویا اسے خیرِ کثیر سے نواز دیا گیا۔‘‘ (حلية الأولياء: ٨/ ٩٢ وسنده صحیح)

تعلیق : حکماء سے مراد دانش مند اور صاحبِ فراست علماء ہیں، جنہوں نے دنیا کی حقیقت کو جان لیا تو اپنے علم کو اس سے بچا لیا، دنیا کو مقصد نہ بنایا بلکہ علم کے ساتھ آخرت طلب کی۔ جیسا کہ امام آجری رحمہ اللہ (٣٦٠هـ) فرماتے ہیں :

قَوْلُ الْفُضَيْلِ: – وَاللَّهُ أَعْلَمُ – الْفُقَهَاءُ كَثِيرٌ، وَالْحُكَمَاءُ قَلِيلٌ يَعْنِي: قَلِيلٌ مِنَ الْعُلَمَاءِ مَنْ صَانَ عِلْمَهُ عَنِ الدُّنْيَا، وَطَلَبَ بِهِ الْآخِرَةَ، وَالْكَثِيرُ مِنَ الْعُلَمَاءِ قَدِ افْتُتِنَ بِعِلْمِهِ، وَالْحُكَمَاءُ قَلِيلٌ، كَأَنَّهُ يَقُولُ: مَا أَعَزَّ مَنْ طَلَبَ بِعِلْمِهِ الْآخِرَةَ.

’’فضیل رحمہ اللہ کا فرمانا کہ علماء تو بہت ہیں لیکن حکماء تھوڑے ہیں۔ اس سے اُن کی مراد یہ ہے کہ علماء میں سے بہت تھوڑے ہی ہیں کہ جنہوں نے اپنے علم کو دنیا سے بچا لیا اور اس کے ذریعے آخرت طلب کی وگرنہ اکثر علماء اپنے علم کے ساتھ فتنے کا شکار ہو گئے۔ اور حکماء تھوڑے ہیں گویا ان کی مراد یہ ہے کہ اپنے علم کے ذریعے آخرت طلب کرنے والے کتنے تھوڑے ہیں!!!‘‘ (أخلاق العلماء، صـ : ٩١)

✿۔ «لَوْ كَانَ مَعَ عُلَمَائِنَا صَبْرٌ مَا غَدَوْا لِأَبْوَابِ هَؤُلَاءِ يَعْنِي الْمُلُوكَ».

’’اگر ہمارے علماء کے پاس صبر ہوتا تو یہ کبھی بادشاہوں کے دروازے پر نہ جاتے۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ٩٢ وسنده صحیح)

تعلیق : علم کی توہین کی بدترین صورت یہ ہے کہ اسے بادشاہوں کے درباروں کی دہلیز پر ڈال دیا جائے۔ علماء کا دنیاوی منافع کے لیے بادشاہوں کے دروازے کا قصد کرنا گھٹیا ترین حرکتوں میں سے ہے۔
اہلُ السنہ کے اصول میں سے ہے کہ اہلِ علم کا حکمرانوں سے تعلق منازعت ومخاصمت کی بجائے مناصحت وخیرخواہی والا ہونا چاہیے۔ لیکن درباری بن کر حلال وحرام میں اُن کی خواہشات کا خیال کرنا اور دنیاوی منافع بٹور کر اپنی آخرت برباد کرنا بڑا گھاٹے کا سودا ہے۔

✿۔ «حَامِلُ الْقُرْآنِ حَامِلُ رَايَةِ الْإِسْلَامِ لَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَلْغُوَ مَعَ مَنْ يَلْغُو وَلَا أَنْ يَلْهُوَ مَعَ مَنْ يَلْهُو وَلَا يَسْهُوُ مَعَ مَنْ يَسْهُو وَيَنْبَغِي لِحَامِلِ الْقُرْآنِ أَنْ لَا يَكُونَ لَهُ إِلَى الْخَلْقِ حَاجَةٌ لَا إِلَى الْخُلَفَاءِ، فَمَنْ دُونَهُمْ وَيَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ حَوَايِجُ الْخَلْقِ إِلَيْهِ».

’’قرآن مجید کا عالم دراصل اسلام کا علم بردار ہوتا ہے، اس کے لیے مناسب نہیں کہ وہ فضول بندے کے ساتھ لغویات میں پڑے، غفلت میں پڑے ہوئے کے ساتھ غافل ہو جائے، بھولے ہوئے کے ساتھ بھول جائے۔ اس کے لیے یہ بھی مناسب نہیں کہ وہ لوگوں کا محتاج ہو، نہ حکمرانوں کا اور نہ ان کے علاوہ لوگوں کا۔ بلکہ چاہیے کہ لوگ اس کے (علم کے) محتاج ہوں۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ٩٢)

تعلیق : حاملِ قرآن کی پہچان ومعرفت قرآن مجید کے ساتھ ہی ہوتی ہے لوگ اسے دین کے عالم کے طور پر ہی جانتے ہیں تو اس کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے اخلاق کو شریعت کے مطابق ڈھالے، جیسے اُس کی معرفت الگ ہے ایسے ہی ہر موقع پر اس کی پہچان الگ ہو۔ جب ساری دنیا فضولیات میں مشغول ہو، اُس کا دھیان اپنی عاقبت سنوارنے کی طرف ہو۔ جب سبھی غفلت میں پڑے ہوں وہ لوگوں کی اصلاح کی فکر سے تڑپ رہا ہو۔ جیسا دیس ویسا بھیس، دوسروں کے رنگ میں رنگ جانا اور ساری دنیا ہی ایسا کر رہی ہے وغيرہ جیسا سطحی زویۂ نظر اہلِ علم کا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

«يَنْبَغِي لِحَامِلِ الْقُرْآنِ أَنْ يُعْرَفَ بِلَيْلِهِ إِذَا النَّاسُ نَائِمُونَ، وَبِنَهَارِهِ إِذَا النَّاسُ مُفْطِرُونَ، وَبِحُزْنِهِ إِذَا النَّاسُ يَفْرَحُونَ، وَلِبُكَائِهِ إِذَا النَّاسُ يَضْحَكُونَ، وَبِصَمْتِهِ إِذَا النَّاسُ يَخْلِطُونَ، وَبِخُشُوعِهِ إِذَا النَّاسُ يَخْتَالُونَ، وَيَنْبَغِي لِحَامِلِ الْقُرْآنِ أَنْ يَكُونَ بَاكِيًا مَحْزُونًا حَلِيمًا حَكِيمًا سِكِّيتًا، وَلَا يَنْبَغِي لِحَامِلِ الْقُرْآنِ أَنْ يَكُونَ، لَا صَخَّابًا وَلَا صَيَّاحًا وَلَا حَدِيدًا».

’’حامل قرآن کو چاہیے کہ جس وقت لوگ سو رہے ہوں وہ اپنی رات (کی عبادت) سے پہچانا جائے اور جس وقت لوگ روزے سے نہ ہوں وہ اپنے دن (کے روزے) سے پہچانا جائے اور جب لوگ خوش ہو رہے ہوں وہ اپنے غم سے پہچانا جائے، اور جب لوگ ہنس رہے ہوں وہ اپنے رونے سے پہچانا جائے، اور اپنی خاموشی سے پہچانا جائے جس وقت لوگ فضولیات میں مشغول ہوں وہ اس کا وقار اس کی پہچان ہو، جس وقت لوگ تکبر کر رہے ہوں وہ اپنے خشوع سے معروف ہو اور حاملِ قرآن کے لیے مناسب ہے کہ وہ رونے والا، غمگین، بردبار، حکمت والا اور خاموش طبع ہو اور حامل قرآن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ شور مچانے والا اور چیخنے چلانے والا اور غصہ کرنے والا ہو۔‘‘ (مصنف ابن أبي شيبة : ٧/ ٢٣١ وسنده منقطع) اس قول کا بعض حصہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔ (المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقي : ٥٥٧، أمالي ابن بشران – الجزء الثاني : ١٢٥٥)

اسی طرح علماء وطلباء کو چاہیے کہ وہ لوگوں کا محتاج نہ بنے بلکہ اپنی علمی قوت و صلاحیت سے لوگوں کو اپنے علم کا محتاج بنائیں ۔ وہ اپنے مسائل لے کر دنیا والوں کے پاس نہ جائے بلکہ دنیادار اپنے مسائل لے کر اس کی خدمت میں پیش ہوں۔

✿۔ «إِنَّمَا هُمَا عَالِمَانِ عَالِمُ دُنْيَا وَعَالِمُ آخِرَةَ فَعَالِمُ الدُّنْيَا عِلْمُهُ مَنْشُورٌ وَعَالِمُ الْآخِرَةِ عِلْمُهُ مَسْتُورٌ فَاتَّبِعُوا عَالِمَ الْآخِرَةِ، وَاحْذَرُوا عَالِمَ الدُّنْيَا لَا يَصُدَّكُمْ بِسُكْرِهِ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ ﴿إِنَّ كَثِيرًا مِنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَيَأْكُلُونَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ﴾ [التوبة: ٣٤] الْآيَةَ. تَفْسِيرُ الْأَحْبَارِ الْعُلَمَاءُ. وَالرُّهْبَانُ الْعُبَّادُ».

’’علماء دو طرح کے ہوتے ہیں، دنیا کا عالم اور آخرت کا عالم ۔ دنیا کا عالم اپنا علم ظاہر کرتا ہے جبکہ آخرت کا عالم اپنا علم ظاہر نہیں کرتا۔ آخرت کے عالم کی اتباع کریں اور دنیا کے عالم سے بچیں کہ آپ کو اپنے نشے کے ساتھ (راہِ نجات سے) نہ روک دے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی : ’’بے شک احبار اور رہبان میں سے اکثر ناجائز طریقے سے لوگوں کے مال کھاتے ہیں۔‘‘ (التوبة : ٣٤) احبار کی تفسیر علماء اور رہبان کی تفسیر عبادت گزار ہے۔‘‘ (حلية الأولياء : ٨ /٩٢ وسنده صحیح)

تعلیق : جو عالم اپنے علم سے آخرت کا طلب گار ہوتا ہے وہ لوگوں کے سامنے اپنے علم کی تشہیر نہیں کرتا اور نہ ہی علم کے بل بوتے پر شہرت کا لالچی ہوتا ہے۔ جبکہ دنیا دار عالم کا مطمح نظر ہی یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کو میرے علم کے بارے میں پتا چلے، زیادہ سے زیادہ لوگ میرے سامعین بننے چاہئیں۔ پھر اس کے ذریعے وہ لوگوں کے مال بٹورتے ہیں۔

✿۔ «إِنَّ اللَّهَ عَزّ وَجَلّ يُحِبُّ الْعَالِمَ الْمُتَوَاضِعَ، وَيُبْغِضُ الْجَبَّارَ، وَمَنْ تَوَاضَعَ لِلَّهِ وَرَّثَهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ».

’’اللہ تعالی متواضع عالم کو پسند کرتے ہیں اور متکبر عالم کو ناپسند کرتے ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ کے لیے تواضع اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے حکمت سے نواز دیتے ہیں۔‘‘ (الديباج للختلي : ٩٠، أخلاق العلماء للآجري، صـ : ٩٥ وسنده صحیح)

تعليق : تکبر کی سب سے بری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے علم پر تکبر کرے۔ دراصل حقیقی عالم متکبر ہوتا ہی نہیں، انسان جس قدر علم میں بڑھتا جاتا ہے اسی قدر اس میں عاجزی وانکساری آتی جاتی ہے۔ البتہ متعالم، چند کتب کا مطالعہ کر کے معلومات جمع کر لینے والے جذباتی لوگ واقعی متکبر بن جاتے ہیں، انہیں اپنے علاوہ کوئی نظر نہیں آتا۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بندے کو حکمت عطاء نہیں ہوتی بلکہ بندہ نورِ بصیرت سے محروم رہ جاتا ہے اور اس کی مثال کتب کا بوجھ اٹھائے جانور کی سی ہو جاتی ہے۔

✿۔ «إِنَّ لِكُلِّ شيءٍ دِيبَاجًا، وَدِيبَاجُ الْقُرَّاءِ تَرْكُ الْغَيْبَةِ».

’’ہر چیز کی عمدہ پوشاک ہوتی ہے اور قراء کی پوشاک غیبت چھوڑ دینا ہے۔‘‘ (الديباج للختلي : ٣٩ وسنده صحیح)

تعليق : قراء کے ہاں بالخصوص اور علم کی طرف نسبت رکھنے والوں کے ہاں بالعموم دوسروں کی غیبت عام پائی جاتی ہے۔ فارغ اوقات دوسروں کے متعلق باتیں کرنے میں ہی صرف کیے جاتے ہیں، یہ رویہ حقیقی عالم دین یا طالب علم کا نہیں۔

✿۔ «لَوْ أَنَّ لِيَ دَعْوَةً مُسْتَجَابَةً مَا صَيَّرْتُهَا إِلَّا فِي الْإِمَامِ قِيلَ لَهُ: وَكَيْفَ ذَلِكَ يَا أَبَا عَلِيٍّ؟ قَالَ: مَتَى مَا صَيَّرْتُهَا فِي نَفْسِي لَمْ تُجْزِنِي وَمَتَى صَيَّرْتُهَا فِي الْإِمَامِ فَصَلَاحُ الْإِمَامِ صَلَاحُ الْعِبَادِ وَالْبِلَادِ قِيلَ: وَكَيْفَ ذَلِكَ يَا أَبَا عَلِيٍّ فَسِّرْ لَنَا هَذَا قَالَ: أَمَّا صَلَاحُ الْبِلَادِ فَإِذَا أَمِنَ النَّاسُ ظَلَمَ الْإِمَامِ عَمَّرُوا الْخَرَابَاتِ وَنَزَلُوا الْأَرْضَ وَأَمَّا الْعِبَادُ فَيَنْظُرُ إِلَى قَوْمٍ مِنْ أَهْلِ الْجَهْلِ فَيَقُولُ: قَدْ شَغَلَهُمْ طَلَبُ الْمَعِيشَةَ عَنْ طَلَبِ مَا يَنْفَعُهُمْ مِنْ تَعَلُّمِ الْقُرْآنِ وَغَيْرِهِ فَيَجْمَعُهُمْ فِي دَارٍ خَمْسِينَ خَمْسِينَ أَقَلَّ أَوْ أَكْثَرَ يَقُولُ لِلرَّجُلِ: لَكَ مَا يُصْلِحُكَ وَعَلِّمْ هَؤُلَاءِ أَمْرَ دِينِهِمْ وَانْظُرْ مَا أَخْرَجَ اللهُ عز وجل مِنْ فِيهِمْ مِمَّا يُزَكِّي الْأَرْضَ فَرُدَّهُ عَلَيْهِمْ. قَالَ: فَكَانَ صَلَاحُ الْعِبَادِ وَالْبِلَادِ». فَقَبَّلَ ابْنُ الْمُبَارَكِ جَبْهَتَهُ، وَقَالَ: «يَا مُعَلِّمَ الْخَيْرِ مَنْ يُحْسِنُ هَذَا غَيْرُكَ».

’’اگر میری کوئی ایک دعا قبول ہونی ہوتی تو میں وہ صرف حکمران کے لیے ہی کرتا۔ پوچھا گیا : ابو علی وہ کیسے؟ فرمایا : اگر میں اپنے لیے کروں گا تو اس کا فائدہ صرف مجھے ہوگا اور اگر میں اسے حکمران کے لیے کر دوں گا تو اس سے لوگوں کی بھی بہتری اور ریاست کی بھی۔ کہا گیا : اے ابو علی! وہ کیسے؟ مزید وضاحت کریں۔ تو انہوں نے فرمایا : ریاست کی درستگی اس طرح ہوگی کہ جب لوگوں کو حکمران کے ظلم کا ڈر نہیں ہوگا تو وہ ویرانیوں پر آبادیاں کریں گے اور زمینیں آباد کریں گے اور لوگوں کی درستگی اس طرح ہوگی کہ جب حکمران جاہل لوگوں کو دیکھے گا تو کہے گا کہ انہیں معیشت نے زیادہ نفع مند چیز یعنی تعلیم قرآن وغيرہ کے حصول سے مشغول کر رکھا ہے لہذا وہ کم و بیش پچاس پچاس لوگوں کو ایک گھر میں جمع کرے گا اور کسی آدمی کو کہے گا کہ تیرا خرچہ میرے ذمہ ہے تم ان لوگوں کو ان کے دینی معاملات سکھاؤ اور دیکھو کہ ان میں سے کون ہے جن کے ذریعے سے ریاست کی بھلائی ہے، اسے لوٹا دو۔ اس طرح سے لوگ بھی بہتر ہوں گے اور ریاست بھی یہ سن کر امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور کہا کہ اے لوگوں کو بھلائی سکھانے والے اپ کے علاوہ ایسی پیاری بات بھلا کون کر سکتا ہے؟‘‘ (حلية الأولياء : ٨/ ٩١ وسنده صحیح)

تعليق : علماء کا حکمرانوں کے ساتھ یہی تعلق ہونا چاہیے کہ اسے نصیحت کریں، اس کی راست بازی و ہدایت کی دعا کریں۔ یہ اہلُ السنہ کے اتفاقی اُصولوں میں سے ہے جیسا کہ

⇚امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (٢٤١هـ) فرماتے ہیں :

«وَإِنِّي لَأَدْعُو لَهُ بِالتَّسْدِيدِ، وَالتَّوْفِيقِ، فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ، وَالتَّأْيِيدِ، وَأَرَى لَهُ ذَلِكَ وَاجِبًا عَلَيَّ».

’’میں تو حکمران کے لیے دن رات ہدایت و توفیق اور نصرت کی دعا کرتا ہوں اور اسے اپنے اوپر واجب سمجھتا ہوں۔‘‘ (السنة للخلال : ١٤ وسنده صحیح)

⇚کئی ایک اہلِ علم نے امام احمد رحمہ اللہ کی طرف یہ قول بھی منسوب کیا ہے : «لَوْ كَانَ لَنَا دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ لَدَعَوْنَا بِهَا لِإِمَامٍ عَادِلٍ؛ لِأَنَّ فِي صَلَاحِهِ صَلَاحًا لِلْمُسْلِمِينَ». ’’اگر ہماری کوئی دعائے مستجاب ہوتی تو ہم وہ امامِ عادل کے لیے کرتے، کیوں کہ اس کی درستگی میں مسلمانوں کی بھلائی ودرستگی ہے۔‘‘ (الفروع لابن مفلح: ٣/ ١٧٨، الإنصاف للمرداوي : ٥/‏٢٤٤)

⇚ ابوبکر مرّوذی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ کے پاس خلیفہ متوکل کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا : «إِنِّي لَأَدْعُو لَهُ بِالصَّلَاحِ وَالْعَافِيَةِ». ’’میں اس کی صلاح وعافیت کی دعا کرتا ہوں۔‘‘ (السنة للخلال : ١٦ وسنده صحیح)

⇚امام حسن بصری رحمہ اللہ کے حوالے سے یہ قول نقل کیا جاتا ہے :

لَوْ عَلِمْتُ لِي دَعْوَةً مُسْتَجَابَةً لَخَصَصْت بِهَا السُّلْطَانَ فَإِنَّ خَيْرَهُ عَامٌّ وَخَيْرَ غَيْرِهِ خَاصٌّ.

’’اگر مجھے علم ہو جائے کہ میری ایک دعا قبول ہونے والی ہے تو میں اسے حکمران کے لیے خاص کروں گا کیونکہ اس کی خیر عام ہوتی ہے جبکہ اس کے علاوہ دیگر لوگوں کی خیر خاص ہوتی ہے۔‘‘ [كفاية النبيه في شرح التنبيه ٤/‏٣٥٦ — لابن الرفعة (٧١٠هـ)]

⇚ امام بربہاری رحمہ اللہ (٣٢٩هـ) فرماتے ہیں :

«وإذا رأيت الرجل يدعو على السلطان فاعلم أنه صاحب هوى، وإذا رأيت الرجل يدعو للسلطان بالصلاح فاعلم أنه صاحب سنة إن شاء الله».

’’جب آپ کسی کو حکمران کے خلاف بد دعا کرتا دیکھیں، تو سمجھ جائیں کہ وہ اہلِ بدعت میں سے ہے اور جب کسی کو دیکھیں کہ وہ حکمرانوں کی اصلاح کی دعاء کررہا ہے تو جان لیجیے کہ وہ ان شاء اللہ اہلُ السنہ میں سے ہے۔‘‘ (شرح السنة، صـ ١١٣)

⇚نیز فرماتے ہیں :

فأمرنا أن ندعو لهم بالصلاح، ولم نؤمر أن ندعو عليهم وإن ظلموا، وإن جاروا؛ لأن ظلمهم وجورهم على أنفسهم، وصلاحهم لأنفسهم وللمسلمين.

’’ہمیں ان کی اصلاح کی دعا کا حکم دیا گیا ہے اور چاہے وہ ظلم و زیادتی بھی کریں تب بھی ان کے خلاف بد دعا کا حکم نہیں ہے ۔ کیوں کہ ان کے ظلم وزیادتی کا گناہ صرف انہیں ملے گا جبکہ ان کے سدھر جانے میں ان کا اپنا بھی فائدہ ہے اور مسلمانوں کا بھی فائدہ ہے۔‘‘ (ایضا)

⇚شیخ الاسلام ابو عثمان صابونی رحمہ اللہ (٤٤٩هـ) فرماتے ہیں :

ويرون الدعاء لهم بالإصلاح والتوفيق والصلاح وبسط العدل في الرعية.

’’اور (اہلِ حدیث) حکمرانوں کے لیے توفیق واصلاح اور رعایا میں عدل وانصاف کے قیام کی دعا کا عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘ (عقيدة السلف وأصحاب الحديث، ت الشمري، صـ ٧٨)

⇚امام ابو بکر اسماعیلی رحمہ اللہ (٣٧١هـ) فرماتے ہیں :

«ويرون الدعاء لهم بالصلاح والعطف إلى العدل».

’’اور ائمہ حدیث کا عقیدہ ہے کہ حکمرانوں کے لیے درستگی اور عدل کی جانب مائل رہنے کی دعا کی جائے۔‘‘ (اعتقاد أئمة الحديث، صـ ٧٥)

⇚امام طحاوی رحمہ اللہ (٣٢١هـ) فرماتے ہیں :

«ولا نرى الخروجَ على أئمتنا وولاةِ أمورنا وإن جاروا، ولا ندعو عليهم، ولا ننزعُ يدًا من طاعتهم، ونرى طاعتهم من طاعة الله عز وجل فريضة، ما لم يأمروا بمعصية، وندعو لهم بالصلاح والمعافاة».

’’ہم نہ تو اپنے حکمرانوں کے خلاف خروج کے قائل ہیں، چاہے وہ ظلم کریں، اور نہ ہی ان کے خلاف بد دعا کرتے ہیں اور جب تک گناہ کا حکم نہ دیں ان کی اطاعت سے ہاتھ نہیں کھینچتے۔ ہم ان کی اطاعت کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا فرض حصہ سمجھتے ہیں۔ ان کی درستگی واصلاح اور بخشش کے لیے دعا کرتے ہیں۔‘‘ (العقيدة الطحاوية، صـ ٦٨)

بہرحال یہ اہلُ السنہ کا اجماعی عقیدہ ہے جیسا کہ کتبِ عقیدہ میں مذکور ہے۔

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ

یہ بھی پڑھیں: مولانا رفیع الدین شکرانوی