علماء سے محبت خیر کی علامت ہے

اہلِ حق، صحیح العقیدہ علماء سے محبت خیر کی علامت ہوتی ہے۔ بلکہ بعض علماء تو ایسے ہوتے ہیں کہ اُن سے محبت یا بغض بندے کے عقیدے کا پتا دیتی ہے۔ بھلا کوئی اُن سے نفرت کیوں کرے گا؟ کوئی زمین کا جھگڑا تو نہیں ہوگا!!! بلکہ اُن سے نفرت کی اَصل وجہ اُن کا عقیدے اور مسلک و منہج ہی ہوں گے ۔ اسی لیے ائمہ، محدثین کے ہاں یہ کلام عام ملے گا کہ فلاں امام سے محبت بندے کے راہِ حق پر ہونے کی علامت ہے اور اُن سے بغض بدعتی و گمراہ ہونے کی علامت ہے۔ جیسا کہ
۔ امام قتیبہ بن سعید رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

إذا رأيتَ الرجلَ يحب أحمدَ بنَ حنبل فأعلم أنه صاحبُ سنةٍ وجماعة.

’’جب آپ کسی کو دیکھیں کہ وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے محبت کرتا ہے تو سمجھ جائیں کہ وہ اہل السنہ والجماعہ میں سے ہے۔‘‘ [الجرح والتعديل : ١/ ٣٠٨ وسنده صحیح]
۔ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

إذا رأيتم الرجل يحب أحمد ابن حنبل فأعلم أنه صاحب سنة.

’’جب آپ کسی بندے کو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے محبت کرتا دیکھیں تو جان لیں کہ وہ صحیح عقیدے پر ہے۔‘‘ [المصدر نفسه وسنده صحیح]
۔ امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جب آپ کسی کوفی کو امام سفیان ثوری اور زائدہ پر طعن کرتے دیکھو تو کوئی شک نہ کرو کہ وہ رافضی ہے، جب کسی شامی کو امام مکحول اور اوزاعی رحمہما اللہ پر نقد کرتے دیکھو تو اُس کے ناصبی ہونے میں کوئی شک نہ کرو، جب آپ کسی بصری کو امام ایوب سختیانی اور ابن عون رحمہما اللہ پر طعن زنی کرتے دیکھو تو اُس کے قدری فرقہ سے ہونے میں کوئی شک نہ کرو اور جب کسی خراسانی کو دیکھیں کہ وہ امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ پر زبان درازی کر رہا ہے تو بغیر شک کے سمجھ جائیں کہ وہ مرجئ ہے ۔ پھر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ سارے گمراہ فرقے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بغض پر متفق ہیں کیونکہ اِن میں سے ہر ایک کے دل میں انہوں نے ایسا تیر چبھو دیا ہے کہ اب اس کے لیے کوئی شفا یابی نہیں۔‘‘ [الطيوريات : ٣/ ١١٠٨]
۔ امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’جب آپ کسی بصری کو دیکھیں کہ وہ حماد بن زید رحمہ اللہ سے محبت کرتا ہے تو وہ اہل السنہ میں سے ہے، جب کسی کوفی زائدہ اور مالک بن مغول رحمہما اللہ سے محبت کرتا دیکھیں تو وہ صحیح عقیدے پر ہے، جب کسی شامی کو امام اوزاعی اور ابو اسحاق فزاری رحمہما اللہ نے سے محبت کرتا دیکھیں تو سمجھ لیں وہ راہِ سنت پر ہے اور جب کسی حجازی کو امام مالک بن انس رحمہ اللہ سے محبت کرتا دیکھیں تو وہ جادۂ مستقیم پر ہے۔‘‘ [تاریخ دمشق لابن عساکر : ٧/ ١٢٧ – ١٢٨]
۔ امام ابو جعفر محمد الفلاس رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

إذا رأيت الرجل يقع في أحمد بن حنبل فأعلم أنه مبتدع ضال.

’’جب آپ کسی کو امام احمد رحمہ اللہ پر طعن زنی کرتا دیکھیں تو جان لیں کہ وہ بدعتی گمراہ ہے۔‘‘ [الجرح والتعديل : ١/ ٣٠٨ وسنده صحیح]

اس طرح کے مزید اَقوال بھی مل جاتے ہیں۔ اِسی اُسلوب وطریق پر چلتے ہوئے ہم پاکستان کے بقیدِ حیات علماء کا ذکر کر سکتے ہیں، بطورِ مثال چند علماء کا ذکر ہے، وگرنہ ان کے علاوہ بھی ہیں، مثلاً ؛
1۔ محدث العصر، علامہ، شیخ ارشاد الحق اَثری حفظہ اللہ
2۔ قرة عيون الموحدين، علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ
3۔ بقية السلف، حافظ مسعود عالم حفظہ اللہ
4۔ استاذ المشایخ، حافظ محمد شریف حفظہ اللہ
5۔ شیخ الحدیث، مولانا عبد العزیز علوی حفظہ اللہ
6۔ شیخ حافظ عبد الستار الحماد حفظہ اللہ
7۔ شیخ، ڈاکٹر فضل الہی حفظہ اللہ
8۔ شیخ عبد الرحمن ضیاء حفظہ اللہ
وغیرہم حفظہم اللہ ۔
اگر آپ کسی کو اِن علماء سے محبت کرتا دیکھیں تو اُس کی طرف سے مطمئن ہو جائیں۔ جو ان سے بغض رکھتا ہو تو سمجھ جائیں کہ اَصلا وہ ان کے عقیدے و منہج سے نفرت کرتا ہوگا۔

حافظ محمد طاھر

یہ بھی پڑھیں: خشیتِ الہی کا حسنِ اخلاق سے تعلق