سوال (4676)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ سنی سنائی بات آگے بیان کر دے تو بعض اوقات ہم کسی مولوی سے کوئی حدیث سنتے ہیں اور ہم نہیں جانتے کہ کس کتاب میں کس راوی سے ہے، کیا یہ حدیث آگے بیان کر سکتے ہیں جو ہم نے صرف سنی ہے۔

جواب

دیکھیں غالب گمان یہ ہے کہ عالم جو بیان کر رہے ہوتے ہیں، ان کے پاس علم ہے، اوروہ ذمے داری سے بات کر رہے ہیں، پھر بھی اگر شک ہو تو اس سے پوچھ لیا جائے، یہ اصل بات ہے، باقی یہ اس ذمرے میں نہیں آتا کہ ہم نے ایک عالم سے بات سنی ہے، پھر آگے بیان کردی، اس سے مراد غیر ذمے دارانہ زندگی ہے کہ انسان ہر بات کو آگے بڑھانے کی کوشش میں رہتا ہے، یہ عوامی باتوں میں ہوتا ہے، حدیثوں میں یہ ہوتا ہے کہ میں نے فلاں سے سنا ہے، اس طرح وہ بری الذمہ ہوجاتا ہے، پھر بھی اگر شک ہو تو پوچھ لینا چاہیے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

دیکھیں اس حوالے سے دو باتیں بڑی اہم ہیں، اسلام میں خبر سے پہلے خبر دینے والی کی اہمیت کیا ہے، خبر دینے والے کو چیک کیا جائے، اگر خبر لانے والا فاسق ہے تو ہر صورت میں اس کی خبر کو دیکھا جائے گا، اگر خبر لانے والا ثقہ، سچا اور صادق ہے، تو پھر آپ اس کی خبر پر بھی اعتبار کر سکتے ہیں، ثقہ و صدوق کی بات کو نشر کرنے میں سنی سنائی بات کو آگے بڑھانے کا حکم نہیں ہے، جب ثقہ و صدوق کی خبر میں ایک ایسا اشو ہو، جو شک کے زمرے میں آتا ہو، صحیح خبر کی مخلافت میں ہو یا ایسی چیز جو اسلام میں ثابت نہ ہو، ایسی کیفیت میں ثقہ و صدوق کی خبر کو بھی دیکھا جائے گا، علی الاطلاق ایسا نہیں کہا جاتا کہ سنی سنائی بات کرنے والا جھوٹا ہے، خبر دینے والے کو دیکھ لیں، اس کے بعد فیصلہ کرلیں۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ

احادیث کو سمجھنے کے لیے ہمیں اساتذہ کے سامنے بیٹھنا ہوگا، یہ حدیث سو فیصد درست ہے، اس میں دیکھنا یہ پڑے گا، اس سے مراد کس آدمی کی بات ہے، دیکھیں کوئی محدث کوئی حدیث بیان کرے گا، اس پر ہم آنکھیں بند کرکے سو فیصد یقین کرلیں گے، کیونکہ محدث کوئی بات بغیر تحقیق کے نہیں کرتا، یہ بات عام آدمی کے لیے ہے، مشائخ کے لیے نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ