“علمائے دین کا خون اور میڈیا کا معیارِ انصاف”

آج ایک بار پھر میڈیا کی اس غیر منصفانہ روش نے ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا جب ایک نوجوان لڑکی کے قتل پر پورا ملک، بالخصوص میڈیا ادارے، چیخ اٹھے۔ سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگز، نیوز چینلز پر بریکنگ نیوز، مباحثے، سیاستدانوں کے بیانات، سول سوسائٹی کی مذمتیں، سب کچھ ایک ساتھ حرکت میں آ گیا۔ یقیناً یہ ایک انسان کی جان کا ضیاع تھا، جو نہایت افسوسناک ہے اور اس پر آواز اٹھانا ہر ذی شعور فرد کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسان کی جان کی حرمت صرف اس صورت میں ہی مقدم ہے جب مقتول کا تعلق کسی خاص طبقے یا سوچ سے ہو؟
کیا علماء کرام کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟
کیا وہ جو پوری زندگی علمِ دین، امت کی اصلاح، اور معاشرے کی فکری و روحانی تربیت میں لگا دیتے ہیں، ان کی موت پر ایک “ٹِکر” بھی کافی نہیں؟
جب ایک عالم کا خون بہتا ہے
ہم نے وہ دن بھی دیکھے کہ جب:
ایک استاد الحدیث کو مسجد میں شہید کر دیا گیا۔
ایک مفتی کو مدرسے کے دروازے پر گولیاں مار دی گئیں۔
ایک حافظِ قرآن کی لاش گلی میں بے یار و مددگار پڑی رہی۔
بعض شہروں میں پوری کی پوری مساجد کو نشانہ بنایا گیا، نمازیوں کو شہید کیا گیا، لیکن نیوز بلیٹن میں اس کی خبر یا تو غائب تھی یا پھر دو جملوں میں سمیٹ دی گئی۔
کوئی بریکنگ نیوز نہیں، کوئی آنسو بہانے والا تجزیہ کار نہیں، کوئی انسانی حقوق کا علمبردار نہیں، اور نہ ہی کوئی حکومتی بیان۔
کہاں ہے علامہ شہید کے قاتل؟
کہاں ہے مولانا ضیاء الرحمن کے قاتل؟
کہاں ہے مولانا اعظم طارق شہید کے قاتل؟
کہاں ہے مولانا سمیع الحق شہید کے قاتل؟
کہاں ہے مولانا یوسف لدھیانوی شہید کے قاتل؟
کہاں ہے مولانا حامد الحق شہید کے قاتل؟
کہاں ہے ڈاکٹر عادل خان شہید کے قاتل؟
علمائے دین کی قدر کیوں نہیں؟
علمائے دین وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے امت کو قرآن و سنت کی روشنی عطا کی، عقائد کی اصلاح کی، مساجد آباد کیں، نوجوانوں کو فتنوں سے بچایا، امت کو بیداری کی راہ دکھائی۔
لیکن یہی لوگ آج:
میڈیا کی ترجیحات میں کہیں نہیں۔
حکومتی توجہ سے محروم۔
عوامی سطح پر بھی بعض اوقات تنقید کا نشانہ۔
وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں علمائے دین کی خدمات اور قربانیوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہیں پرانی سوچ، دقیانوسیت یا شدت پسندی سے جوڑ دیا جاتا ہے، حالانکہ یہی لوگ امن، اعتدال، علم، شعور اور اصلاح کے نمائندے ہوتے ہیں۔

میڈیا کی دہری پالیسی:

ہمارا میڈیا مکمل طور پر طبقاتی تعصب کا شکار ہو چکا ہے:
اگر کسی اینکر، ماڈل، یا لبرل طبقے کے فرد کے ساتھ واقعہ پیش آئے تو پوری قوم بیدار ہو جاتی ہے۔
لیکن اگر ایک عالم دین شہید کر دیا جائے تو گویا کوئی معمولی خبر ہو جسے بیان کرنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔
یہ صرف تعصب نہیں، یہ فکری دہشتگردی ہے۔ ایک مخصوص ذہن سازی، ایک خاص بیانیہ بنانے کی کوشش۔

امت کا علمی و روحانی نقصان:

علمائے دین کا قتل صرف ایک فرد کا قتل نہیں ہوتا، بلکہ وہ پوری نسلوں کے لیے علمی، دینی اور فکری رہنمائی کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ ایک عالم کی شہادت ایک چراغ کا بجھ جانا ہے، جو سینکڑوں دلوں کو روشنی دیا کرتا تھا۔
جب علماء کو بے دردی سے قتل کر دیا جائے، اور معاشرہ خاموش تماشائی بن جائے، تو یہ قوم اپنی تباہی کے سفر پر خود مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے۔
حل کیا ہے؟
عوام کو بیدار ہونا ہوگا: علمائے کرام کے مقام کو سمجھیں، ان کے تحفظ کی بات کریں، ان کے خون کی حرمت پر آواز بلند کریں۔
میڈیا کو بے نقاب کریں: جو میڈیا امتیازی سلوک کرے، اس کے خلاف عوامی دباؤ پیدا کریں، متبادل ذرائع اپنائیں۔
ریاست کو جواب دہ بنائیں: علماء کے قتل پر فوری تحقیقات، انصاف کی فراہمی، اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
طلباء اور مدارس کی حفاظت: دینی ادارے اس وقت سب سے زیادہ نشانے پر ہیں، ان کی سیکیورٹی ریاست کی ذمے داری ہے۔
قومی بیانیہ کی اصلاح: علماء کو شدت پسندی سے جوڑنے کے بجائے انہیں امن، اعتدال، اور علمی رہنمائی کے نمائندے کے طور پر پیش کیا جائے۔
جو قوم اپنے علمائے دین کا احترام اور تحفظ نہیں کرتی، وہ تاریخ کے صفحات میں عبرت کی داستان بن جاتی ہے۔
علمائے دین وہ چراغ ہیں جن سے امت کی فکری روشنی قائم ہے، اگر ان چراغوں کو بجھا دیا جائے تو باقی صرف اندھیرے بچتے ہیں۔
کاش کہ ہم سمجھ سکیں کہ ایک لڑکی کا قتل بھی ظلم ہے، لیکن ایک عالم کا قتل علم، روشنی، امن اور اصلاح کا قتل ہوتا ہے اور اس پر خاموشی خود ایک جرم ہے۔

 یاسر مسعود بھٹی
خادمُ العلم والعلماء

یہ بھی پڑھیں:گستاخانِ صحابہ کا عبرتناک انجام